الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: عموماً انسان پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے، لہذا بلوغت کا حکم پندرہ سال پر لگ جائے گا، اگر چہ وہ سولہ یا سترہ سال کی عمر میں بالغ ہو، کیوں کہ یہ نادر ہے، اور اس کا اعتبار نہیں ہوگا، اسی طرح ماں سات سال کی عمر تک بچہ کی پرورش کی حق دار ہوکی ، کیوں کہ عموماً سات سال کی عمر میں بچہ کھانے پینے ،پہننے اوراستنجاء کرنے میں دوسرے کا محتاج نہیں رہتا، اگر وہ آٹھ سال کی عمر تک بھی مستغنی نہ ہوا، تو بھی ماں کو پرورش کا حق نہ حاصل ہوگا، کیوں کہ یہ نادر ہے، اور حکم کا مدار غالب ہوتا ہے ،نہ کہ نادر۔ (در رالحکام:۱/۵۰، المادۃ:۴۲)قاعدہ(۱۳۳):{اَلْحُکْمُ فِي الأصْلِ إذَا کَانَ عَلٰی خِلافِ الْقِیَاسِ لایُقَاسُ عَلَیْہِ} ترجمہ: جب حکم ،اصل (مقیس علیہ)میں خلافِ قیاس ثابت ہو، تو اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ (جمہرۃ القواعد:۲/۷۲۴، رقم:۸۴۲، درر الحکام: ۱/۳۳، المادۃ: ۱۵، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: ۲۶)مثال: بیع سلم واستصناع کا جواز خلافِ قیاس ہے، کیوں کہ یہ معدوم کی بیع ہے ، لہذا اس پر قیاس کرتے ہوئے درختوں پر پھل آنے سے پہلے ،پھل کی بیع کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ بیع سلم واستصناع کا جواز خلافِ قیاس ہے ۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام : ۱/۳۳)قاعدہ(۱۳۴): {اَلْحُکْمُ فِي الْمَنْصُوْصِ ثَابِـتٌ بِالنَّصِّ لا بِالْعِلَّۃِ} ترجمہ: منصوص میں حکم نص سے ثابت ہوتا ہے ، نہ کہ علت سے۔ (المبسوط:۱۲/۱۳۴)مثال: اشیاء ستہ یعنی گیہوں، جو، نمک، کھجور، سونااور چاندی میں تحققِ رباکا حکم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’ الحنطۃ بالحنطۃ ، والشعیر بالشعیر، والملح بالملح ، والتمر بالتمر، والذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ، مثلا بمثل ، یدا بید ، فمن زاد أو استزاد فقد ربا ‘‘ سے ثابت ہے۔نہ کہ علتِ قدر وجنس سے۔