الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
اب عرضِ اسلام کے بعد دوصورتیں ہوںگی:… اگراس نے اسلام کو قبول کیا تو نکاح علی حالہ رہے گا،اور اگر انکار کیا تو فرقت واقع ہوگی، کیوںکہ مضیِ ثلاث حیض ایقاعِ فرقت میں عرضِ اسلام کے قائم مقام تھا، لیکن جب وقوعِ فرقت (یعنی حصول مقصود بالخلف) سے ـپہلے امام المسلمین عرض اسلام (اصل) پرقادر ہوا ان دونوں کے دار الاسلام کی طرف چلے آنے کی وجہ سے، تو اعتبار خلف (یعنی مضیِ ثلاث حیض) ساقط ہوگا۔قاعدہ(۲۲۳): {قَدْ یُتَحَمَّلُ الْیَسِیْرُ فِیْمَا لا یُتَحََمَّلُ فِیْہِ الْکَثِیْرُ} ترجمہ: کبھی کسی ایسی چیز میں یسیر کا تحمل کیا جاتا ہے ، جس میں کثیر کا تحمل نہیں کیا جاتا ۔ (جمہرۃ:۲/۸۰۵، رقم :۱۳۵۰)مثال: اگر ادویات میں ملایا گیا الکحل انگور اورکھجور کے علاوہ دیگر اشیاء سے کشید کیا گیا ہو، تو شیخین کے نزدیک ان ادویات کا استعمال ضرورۃً جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ حد سکرکو نہ پہنچا ہو ۔ (فتاوی حقانیہ: ۶/۴۴)فائدہ: یہاں الکحل کم ہونے کی بناء پر جائز ہے، لیکن اگر اتنا زیادہ ہو جو سکر کی حد تک پہنچ جاتا ہو، تو جائز نہیں ہے ۔قاعدہ(۲۲۴): {اَلْقَدِیْمُ یُتْرَکُ عَلٰی قِدَمِہٖ} ترجمہ: قدیم کو اپنی پرانی حالت پر چھوڑا جائے گا۔ (درر الحکام :۱/۲۴ ، المادۃ :۶، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۸۰۷، رقم القاعدۃ :۱۳۱۶، القواعد الفقہیۃ: ص۳۱۸ ، ۳۷۵ ، قواعد الفقہ:ص۹۸، القاعدۃ:۲۱۱ ، ترتیب اللآلي :ص۸۸۳ ، شرح القواعد :ص۹۵)مثال: کوئی پرانا راستہ ہو یا پانی کا گٹر ہوتو اسے اپنی پرانی حالت پر ہی برقرار رکھا جائے گا، جب تک کہ عام لوگوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔قاعدہ(۲۲۵): {قَدْ یَثْبُتُ الشَّيئُ تَبْعًا وَحُکْمًا وَإنْ کَانَ یَبْطُلُ قَصْدًا} ترجمہ: کبھی کوئی شی ٔتبعاً وحکماً ثابت ہوجا تی ہے، اگرچہ وہ مستقلاً وقصداً باطل ہوتی ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۹۷، القاعدۃ:۲۰۹ ، ترتیب اللآلي :ص۸۸۹ ، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ: القاعدۃ :۱۳۵۲، ۱۳۵۴، ۱۳۵۶، وکذا في شرح السیر الکبیر:۲/۱۴۹، دار الکتب العلمیۃ بیروت ،۲/۱۴۴، باب النفل في دار الحرب ، رد المحتار:۶/۴۳۱ ، البحر الرائق :۵/۳۳۴ )