الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ (۳۰۴): {اَلْیَقِیْنُ لا یَزُوْلُ إلا بِیَقِیْنٍ} ترجمہ: یقین ،یقین ہی سے زائل ہوگا۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۱۴۱، باب من یکرہ قتلہ من أہل الحرب ومن لا یکرہ ، الأشباہ والنظائر، قواعد الفقہ:ص۱۱۴، القاعدۃ:۲۸۷)نوٹ: یہاں یقین سے مراد ظن غالب ہے۔مثال: کسی شخص کا غالب ظن یہ ہو کہ اس نے بلا وضو ہی نماز پڑھی ،یا یہ غالب گمان ہو کہ اس نے نماز کی شرطوں میں سے کسی شرط کو چھوڑ دیا تو وہ اس نماز کا اعادہ کرلے۔ (غمز عیون البصائر:۱/ ۳۳۷)قاعدہ(۳۰۵): {مَا ثَبَتَ عَلٰی خِلافِ الْقِیَاسِ فَغَیْرُہٗ لا یُقَاسُ عَلَیِہِ} ترجمہ: جو حکم خلاف قیاس ثابت ہو تو اس پر دوسرے کو قیاس نہیں کیا جائے گا۔ (درر الحکام :۱/۳۳ ، المادۃ :۱۵، قواعد الفقہ:ص۱۱۴، القاعدۃ:۲۸۸، ترتیب اللآلي:ص۱۰۳۰، شرح القواعد:ص۱۵۱)مثال: امام ابودائود واحمد رحمہما اللہ نے عمارہ ابن خزیمہؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے ایک گھوڑا خریدا ،اور اداء ثمن کے لئے اس اعرابی کو لے کر گھر کی طرف چل دیئے، وہ اعرابی چوںکہ پیچھے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تیز تھی اور وہ دیہاتی سست رفتاری سے چل رہا تھا، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس اعرابی کے درمیان کچھ فاصلہ ہوا، تو لوگوں نے اس اعرابی کو روک کر اس سے اس گھوڑے کا سودا کرنا شروع کیا اور انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس گھوڑے کو خریدلیاہے ،تو اس اعرابی نے آپ کو آواز دے کر یہ کہا کہ اگر آپ کو لینا ہو تولو! ورنہ میں اس کو بیچ دوںگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں نے یہ گھوڑا تم سے خریدا نہیں ؟ تو وہ اعرابی یہ کہنے لگا کہ اگر خریدا ہے تو گواہ لے آئو! تو حضرت خزیمہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس کو خریداہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم کس طرح گواہی دے رہے ہو؟ جب کہ تم سودے کے وقت موجود نہیں