الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’من أتی عرافا فسألہ عن شیٔ لم تقبل لہ صلوٰۃ أربعین لیلۃ ‘‘۔ (مسلم شریف:۲/۲۳۳،کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ واتیان الکہان) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من أتی امرأتہ الحائض أوأتاہا فی غیر ما أتاہا أوأتی کاہنا فصدقہ بما یقول فقد کفر بما أنزل اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ومرادہ إذا استحل ذلک الفعل‘‘ ۔ (کتاب المبسوط للإمام شمس الدین السرخسي:۳/۱۵۲،کتاب الحیض)قاعدہ(۲۶۸): {لا عُمُوْمَ لِدَلَالَۃِ النَّصِّ وَلا لإقْتِضَائِ النَّصِّ} ترجمہ: دلالت النص اور اقتضاء النص کو عموم حاصل نہیں ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۸، رقم القاعدۃ:۲۵۸) مثال: دلالت النص اور اقتضاء النص کو عموم حاصل نہیں ہوتا،کیوںکہ عموم اوصافِ لفظ میں سے ہے، اور جب دلالت النص اور اقتضاء النص کو عموم حاصل نہیں، تو یہ دونوں تخصیص کا احتمال بھی نہیں رکھیں گے، چنانچہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے کہے: ’’ أنت طالق‘‘۔’’تو طلاق والی ہے‘‘ یا ’’طلقتک‘‘۔’’میں نے تجھ کو طلاق دی‘‘، اور اپنے اس قول سے تین طلاق کی نیت کرے تو اس کی یہ نیت صحیح نہیں ہوگی، اس لئے کہ ’’ أنت طالق ‘‘ عورت کا وصف ہے ،اور وصف مصدر کا تقاضہ کرتا ہے، کیوںکہ وہ اسی سے ماخوذ ہوتا ہے، گویا ’’ أنت طالق‘‘ میںمصدر (طلاقاً) بطریق اقتضاء موجود ہے، اور جو چیز بطریق اقتضاء ثابت ہو تی ہے اس کو عموم نہیں ہوتاہے ۔ (اصول الشاشی:ص؍۳۱،۳۲)دلالت النص : وہ ایسا معنٰی ہے، جس کا حکمِ منصوص علیہ کے لئے علت ہونا باعتبار لغت کے معلوم ہو، نہ کہ باعتبار اجتہاد و استنباط ، گویا دلالت النص سے جو معنی معلوم ہوتے ہیں، وہی معنی حکم کی علت ہوتے ہیں، مثلاً {لا تقل لہما اُفٍّ}والدین کو اف نہ کہو! یہاں حرمتِ تافیف کی علت معنی ایذاء ہے۔اقتضاء النص : نص پر ایسی زیادتی کہ جس کے بغیر معنیٔ نص صحیح نہ ہو، مثلاً ’’ أنت طالق‘‘میں جب تک ’’طلاقاً ‘‘ مصدر کی زیادتی نہیں کی جائے گی، تب تک کلام صحیح نہ ہوگا۔