الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۲۳):{اَلْحَقُّ إذَا کَانَ مِمَّا لا یَتَجَزّٰی فَإنَّہٗ یَثْبُتُ لِکُلٍّ عَلَی الْکَمَالِ} ترجمہ: حق جب ان چیزوں میں سے ہو جو تجزی کو قبول نہیں کرتیں، تو ہر صاحبِ حق کے لئے پورا پورا حق ثابت ہوگا۔ (الأشباہ لإبن نجیم :ص۲۲۴ ، قواعد الفقہ:ص۷۷، القاعدۃ:۱۱۵)مثال: جو حق پوری جماعت کے لئے ثابت ہو، وہ حق پوری جماعت کے مابین مشترک ہوگا،مگر بعض مسائل میں؛ مثلاً نابالغ بچے اور بچی پر ولایتِ اِنکاح تمام اولیاء کے لئے ثابت ہے، اور یہ ایسا حق ہے جو تجزی کو قبو ل نہیں کرتا ، اس لیے ہر ولی کے لئے یہ حق پورا پورا ثابت ہوگا۔ (الاشباہ: ص؍۲۲۴)قاعدہ(۱۲۴): {اَلْحُقُوْقُ لا تَسْقُطُ بِتَقَادُمِ الزَّمَانِ وَإنْ طَالَتِ الْمُدَّۃُ} ترجمہ: حقوق، تقادُمِ زمانی (زمانہ کا پرانا ہونا) سے ساقط نہیں ہوتے، گرچہ مدت طویل ہوجائے۔ (القواعد الفقہیۃ:ص۳۰۸ ، قواعد الفقہ:ص۷۷، القاعدۃ:۱۱۶، شرح السیر الکبیر:۵/۱۴۳، باب عشور أہل الحرب والمسلمین وأہل الذمۃ)فائدہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’ فأعط کل ذي حق حقہ ‘‘۔ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دینا واجب ہے ۔ (بخاری شریف : ۱/۲۶۴) ۔ آپ کا یہ فرمان قیدِ زمانی سے مطلق ہے، لہذا تقادمِ زمان کے سبب کسی صاحبِ حق کا حق ساقط نہیں ہوتا۔مثال۱: اگر کسی شخص کا آپ پر کوئی قرض یا کوئی اور حق ہے تو محض تقادمِ زمانی کی وجہ سے وہ حق ساقط نہیں ہوگا، بلکہ آپ پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی اور نہ اداکرنے کی صورت میں کل قیامت کے دن وہ حق، صاحبِ حق کو آپ سے دلوایا جائے گا۔مثال۲: ایک شخص نے کسی کا مال چوری کرلیا اور اس چوری شدہ مال پر کئی دن گذرگئے، تو چونکہ یہ بندہ کا حق ہے ، لہذا مالِ مسروق کا لوٹانا ضروری ہوگا، تقادمِ زمان کی وجہ سے یہ حق ساقط نہ ہوگا۔ (الدر المختار مع التنویر:۶/۴۰، باب الشہادۃ علی الزنا والرجوع عنہا)