الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۳۱۳): {مَا قَارَبَ الشَّيْئَ أعْطِيَ حُکْمُہٗ} ترجمہ: قرب شی ٔ کوشیٔ کا حکم دیا جاتا ہے۔(موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۱۶۹)مثال: اگر کوئی شخص کسی کا مالِ متقوم ضائع کردے، اور اس جگہ کوئی نقد متعارف ومروج نہ ہو، تو اقربِ بلاد کے نقد سے اس مال کی قیمت لگا کر ضمان واجب ہوگا۔ لولم یکن لہم نقد فأتلف شخص علی آخر مالاً فیقوم بنقد أقرب البلاد إلیہم۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۱۷۰)قاعدہ(۳۱۴):{مَا کَانَ ثَابِتًا فَإنَّہٗ یَبْقٰی بِبَقَائِ بَعْضِ آثَارِہٖ وَلا یَرْتَفِعُ إلَّا بِإعْتِرَاضِ مَعْنیً ہُوَ مِثْلُہٗ} ترجمہ: جو چیز ثابت تھی، اس کے بعض آثار کے باقی رہنے سے وہ باقی ہی رہے گی ،اور اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ کوئی ایسا معنی پیش نہ آئے جو اسی کے مثل ہو۔ (شرح السیر الکبیر : ۴/۵۷ ، باب ما یقطع من الخشب وما یصاب من الملح وغیرہ ، قواعد الفقہ : ص۱۱۶، القاعدۃ : ۲۹۶)مثال: زمین کا جو حصہ حربیوں اور کافروں کے قبضہ میں ہے، وہ اس وقت تک دار الاسلام نہیں ہوگا جب تک کہ اس پر سے ان کا قبضہ پوری طرح ختم نہ ہوجائے۔قاعدہ(۳۱۵):{مَا کَانَ عَلٰی وَجْہِ الإبَاحَۃِ یَسْتَوِیْ فِیْہِ الْغَنِيُّ وَالْفَقِیْرُ} ترجمہ: جو چیز بطوراباحت ہو، اس میں مال دارو فقیر دونوں برابر ہوتے ہیں۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۲۳، باب الحبیس في سبیل اللہ ، قواعد الفقہ:ص۱۱۶، القاعدۃ:۲۹۷)مثال: عموماً موسمِ گرما میں چوراہوں اور نُکّڑوں پربعض تنظیموں اور اداروں کی طرف سے ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، جو بطوراباحت ہوا کرتی ہیں، اس پانی کو امیرو غریب سب پی سکتے ہیں۔ (شرح السیر:۴/۲۵۸)