الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قواعد فقہیہ اور ان کے مراتب : قواعد نہ تو ایک ہی نوع کے ہیں، او رنہ ہی درجہ و رتبہ میں یکساں ہیں، بلکہ قواعد کی کئی قسمیں اور مراتب ہیں،اور اس تنوع و تفاوت مراتب کے دو بنیادی سبب ہیں۔ (۱) کبھی قاعدہ، اپنے ماتحت تمام مسائل و فروع کو شامل ہوتا ہے۔ (۲) کبھی مضمون قاعدہ متفق علیہ ہوتا ہے یا مختلف فیہ۔ سبب اول کے لحاظ سے قواعد فقہیہ کے تین مراتب ہیں:مرتبۂ اولیٰ : قواعد کلیہ کبریٰ(جن کو ہم قواعد اساسیہ بھی کہتے ہیں)یہ وہ قواعد ہیں کہ ان کے تحت، فقہ کے بڑے بڑے ابواب، اس کے مسائل، اور افعال مکلفین داخل ہیں (گرچہ تمام افعال نہ سہی)، یہ چھ قاعدے ہیں: (۱) ’’ إنَّمَاالْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ یا ’ ’ اَلْأُمُوْرُ بِمَقَاصِدِہَا ‘‘ ۔ احکام امور، مقاصد کے اعتبار سے ہوتے ہیں۔ (۲) ’’اَلْیَقِیْنُ لا یَزُوْلُ بِالشَّکِّ‘‘ یا’’ اَلْیَقِیْنُ لا یَرْتَفِعُ بِالشَّکِّ‘‘ ۔یقین شک سے ختم نہیں ہوتا۔ (۳) ’’ اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ‘‘۔ مشقت آسانی پیدا کرتی ہے۔ (۴) ’’ لا ضَرَرَ وَلا ضِرَارَ‘‘ یا ’’ اَلضَّرَرُ یُزَالُ‘‘۔ ضرر و تکلیف کو زائل کیا جاتا ہے۔ (۵) ’’ اَلْعَادَۃُ مُحَکِّمَۃ ‘‘ ۔عادت فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے، یعنی اثبات حکم شرعی میں عادت کو حکَم بنایا جاتا ہے۔ (۶) ’’اِعْمَالُ الْکَلاَمِ اَوْْلٰی مِنْ اِہْمَالِہٖ‘‘۔ کلام کو کارآمد بنانا اسے بے کا رکر دینے سے بہتر ہے۔مرتبۂ ثانیہ : ایسے قواعد کہ ان کے تحت بھی مختلف ابوابِ فقہ کے بے شمار مسائل داخل ہیں، مگر ان میں وہ وسعت و شمولیت نہیں جو مرتبۂ اولیٰ میں ہے۔ اس طرح کے قواعد کی دو قسمیں ہیں: