الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
مثال۱: زید، عمرو کے ذمہ اپنے ہزار درہم قرض ہونے کا دعوی کرے اور عمرواس کا منکر ہو اور زید کے پاس اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دوگواہ موجود نہ ہوں، تو عمرو ہی کا قول معتبر ہوگا؛ کیوںکہ اصل آدمی کے ذمہ کا بری ہونا ہے، اور ذمہ کا مشغول ہونا خلافِ اصل ہے ،جب کہ خلافِ اصل کو ثابت کرنے کے لئے بینہ ضروری ہے اور وہ زید کے پاس نہیں ،اس لیے عمروہی کا قول معتبر ہوگا۔مثال۲: کسی شخص نے کسی پر زنا،قتل،یاچوری کی تہمت لگائی، تو شخصِ مُتَّہَم اس تہمت سے بری سمجھا جائے گا، تا آنکہ مُتَّہِم اپنی اس تہمت پر بینہ پیش کردے،کیوں کہ اصل آدمی کا بری الذمہ ہونا ہے ۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۷)قاعدہ(۳۳): {اَلتَّمَسُّکُ بِالأَصْلِ یَصْلُحُ حُجَّۃً لِإبْقَائِ مَا کَانَ عَلَی مَا کَانَ} ترجمہ: اصل سے استدلال کرناشی ٔ کو اس کی حالتِ سابقہ پر باقی رکھنے کے لیے حجت ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۳۴، باب الشروط في الموادعۃ وغیرہا، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۲۲۵، درر الحکام:۱/۲۳، المادۃ:۵، ترتیب اللآلي:ص۳۱۵ ، القواعد الفقہیۃ:ص۲۹۵، ۳۱۸، قواعد الفقہ :ص۵۹، القاعدۃ:۳۱، شرح القواعد:ص۸۷، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۵)مثال۱: چیزوں میں اصل بقا (باقی رہنا) ہے اور عدم (نیست و نابود ہونا) طاری ہے، اگر کسی آدمی نے آخر شب میں سحر کھائی اور طلوع صبح صادق میں اسے شک ہوا ،تو اس کا روزہ درست ہے، کیوں کہ بقائِ شب اصل ہے ۔مثال۲: مستاجر(مالک) موجر(مزدور) کواجرت ادا کرنے کا دعوی کرے، اور اس موجر اس کا منکر ہو، تو موجر کا قول یمین کے ساتھ معتبر ہوگا، کیوں کہ اجرت کا مستاجر کے ذمہ باقی رہنا اصل ہے، الا یہ کہ مستاجر دفعِ اجرت پر کوئی ثبوت پیش کردے۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۵)قاعدہ(۳۴): {اَلأصْلُ فِيْ الشَّکِّ عَدْمُ الْفِعْلِ} ترجمہ: شک میں اصل فعل کا نہ ہونا ہے۔ (الأشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۲۳، الأشباہ والنظائر:۱/۲۳۲)