الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کوئی آدمی جنگل میں کسی خاتون اور اس کے بچے کے پاس سے گذرا، جب کہ وہ ان دونوں کو شہر کی طرف منتقل کرنے پر قادر تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیااور اس خاتون اور اس کے بچہ کو کوئی گزند پہونچ گئی، تو شخصِ مذکور ضامن نہیں ہوگا، کیوںکہ ترکِ احسان گناہ نہیں ہے کہ اس پر ضمان واجب ہو۔لیکن احسان اولیٰ ہے، کیوںکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :{واللّٰہ یحب المحسنین} ۔اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں،اس لیے بندہ کو ہر وہ کام کرلینا چاہئے، جو اسے اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب بنائے۔قاعدہ(۸۸): {تَرْکُ الْقِیَاسِ بِالتَّعَامُلِ جَائِزٌ فِي الْمُعَامَلاتِ} ترجمہ: معاملات میں بربناء تعاملِ ناس ترکِ قیاس جائز ہے۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۸/۶۸۵، رقم:۵۷۹، ہدایہ: ۲/۱۰۰)مثال: استصناع (آرڈ ر دے کر کسی چیز کو بنوانا)بیعِ معدوم ہونے کی وجہ سے خلافِ قیاس ہے، لیکن تعامل کی بناء پرقیاس کو ترک کردیا گیا ، اور استصناع کو جائز کہا گیا ۔مثال: حمام میں اجرت پر نہانا ،غسل خانہ میں ٹھہرنے اور پانی خرچ کرنے کی مقدار مجہول ہونے کی بناء پر خلاف قیاس ہے، لیکن تعامل کی بناء پر اسے جائز قرار دیا گیا ۔ (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید: ۴/۳۰۳، تکملۃ فتح الملہم: ۱/۳۲۰، الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۱/۱۵۱، الہدایہ: ۲/۱۰۰)قاعدہ(۸۹): {اَلتَّصَرُّفُ عَلَی الرَّعِیَّۃِ مَنُوْطٌ بِالْمَصْلَحَۃِ} ترجمہ: رعایا کے حق میں تصرف، مصلحت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ (الأشباہ لإبن نجیم:ص۴۰۸ ، الأشباہ للسیوطي:۱/۲۶۹، درر الحکام:۱/۵۷، المادۃ:۵۸، قواعد الفقہ : ص۷۰، رقم القاعدۃ:۸۳ ، ترتیب اللآلي:ص۵۱۸، القواعد الفقہیۃ:ص۸۶، ۱۲۲، شرح القواعد:ص۳۰۹، القواعد الکلیۃ:ص۳۵۲)مثال: جس مقتول کا ولی ٔ قصاص نہ ہو سلطانِ وقت کے لیے اس کے قاتل کو معاف کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ محض قصاص اورصلح کا مختارہے، اس لیے کہ سلطان کے تصرف میںرعایا کی مصلحت