الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: اداروں، تحریکوں، مسجدوں اور مدرسوں، الغرض دین کا ہر شعبہ، جہاں خدمتِ اسلام اور اشاعتِ دین کا کام ہورہا ہو، ان میں فتنہ انگیزی کرنااور دوسروں کے ذریعہ کروانا دونوں حرام ہیں، بعض لوگ دوسروں سے فتنہ انگیزی کروا کر بزعمِ خود یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بری ہیں، جب کہ وہ بری نہیں ہیں،بلکہ علت العلۃ کے معنی میں ہیں، لہذا اس کا حکم ان ہی کی طرف منسوب ہوگا۔ (رحمانی)قاعدہ(۳۱۱): {مَا حَصَلَ بِسَبَبٍ خَبِیْثٍ فَالسَّبِیْلُ رَدُّہٗ} ترجمہ: جو چیز حرام طریق سے حاصل ہو تو اس سے سبک دوشی کا راستہ اس کا اس کے اصل مالک کو لوٹا نا ہے۔ (شرح السیر الکبیر : ۴/۱، باب المسلم یخرج من دار الحرب ومعہ مال فیما یصدق فیہ وما لا یصدق ، قواعد الفقہ : ص۱۱۵، القاعدۃ : ۲۹۳)مثال: اگر کسی شخص نے بصورت مجبوری بضرورتِ حفاظت اپنا روپیہ ، پیسہ بینک میں جمع کیا، اوربینک کی طرف سے اس کے اکاؤنٹ میں کچھ سودی رقم چڑھ گئی، تو وہ اسے لے لے اور فقراء و مساکین پر بلانیتِ ثواب صدقہ کردے۔ لے لینے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر وہ اس رقم کو بینک میں چھوڑ دیتاہے ، تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگی۔ اور تصَدُّق بلانیت کا حکم اس لئے ہے کہ اس سودی رقم کا اصل حکم تو یہ تھا کہ جس شخص کو اس کی یہ رقم سود پر دی گئی تھی ،جس پر یہ سود وصول ہوا، اسی کو یہ رقم واپس کی جاتی، لیکن چونکہ بینک کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اصل مالک کا علم نہیں ہو سکتا، اس لئے فقہاء کرام نے بلانیتِ ثواب صدقہ کردینے کا حکم فرمایا۔ ( رحمانی) امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ جو مال حرام طریقہ سے حاصل ہو تو اس سے خلاصی کا راستہ اس کو لوٹا دینا ہے۔ (السیر الکبیر:۳/۳) ’’رد المحتار‘‘ میں ہے کہ جو حکم امام محمدؒ نے ذکر فرمایا، یہ اس صورت میں ہے جب کہ اصل مالک معلوم ہو، ورنہ اس کوصدقہ کردیں، کیوںکہ خبیث طریقہ سے کمائے ہوئے مال کا اصل مالک معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس کا لوٹانا متعذر ہے۔ (ردالمحتار:۵/۳۵۵)