الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
یہی وجہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:{وعلی المولود لہ رزقہن و کسوتہن بالمعروف}’’ اور جس کا بچہ ہے (یعنی باپ) اس کے ذمہ ہے ان کی مائوں کا کھانا، کپڑا قاعدہ کے موافق‘‘۔(سورۂ بقرہ :۲۳۳) کے اشارۂ عام (بیٹا اور اس کے جمیع اموال باپ کی ملک ہیں) سے بیٹے کی باندی سے باپ کے لیے عدمِ اباحتِ وطی کو خاص کیا ۔قاعدہ(۲۹۶): {لَیْسَ مِنَ الصَّوَابِ أنْ یَتْرُکَ فَرْضًا عَیْناً لِیَتَوَصَّلَ إلٰی مَا ہُوَ فَرْضُ کِفَایَۃٍ} ترجمہ: فرضِ کفایہ تک رسائی کے لیے ، فرضِ عین کا ترک درست نہیں ہے۔ (شرح کتاب السیر الکبیر:۱/۱۳۵)مثال۱: اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہو ،اوراولاد کے ان کے پاس موجود نہ ہونے کی صورت میں انہیں ضرر کا اندیشہ ہو ،تو ایسے موقع پر اولاد کے لیے جہاد پر جانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جہاد فرض کفایہ ہے اور والدین کی خدمت فرض عین ہے ۔ (شرح کتاب السیر الکبیر: ۱/۱۳۵، الفتاوی الہندیۃ: ۲/۱۸۹)مثال۲: اسی طرح اگر والدین تنگ دست ہوں اور بیٹے کے سفر پر جانے کی صورت میں ان کے خرچ کاانتظام نہ ہو، یاضعیف اور بیمار ہوں، اور ان کی خدمت اور خبر گیری کے لیے اور کوئی موجود نہ ہو، تب تو ان کی اجازت اور مرضی کے خلاف کسی بھی سفر میں جانا جائزنہیں ہے، خواہ وہ سفر تبلیغ کا ہو یا تحصیلِ علم کا ، یا حج وعمرہ کا، لیکن اگر ان کے خرچ کا بھی انتظام ہے او رخبر گیری کرنے والے بھی موجود ہیں ، تو ایسی صورت میں فقہاء نے ایسے سفر کی اجازت دی ہے ، جس میں ہلاکت کاگمانِ غالب نہ ہو، اس حال میں اگر والدین کی اجازت کے بغیر بھی کوئی شخص تبلیغ کے سفر پر چلاجائے ، تو ان شاء اللہ گناہ نہ ہوگا۔ (فتاوی عثمانی: ۱/۲۷۴، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)