الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۶۷): {لا عِبْرَۃَ بِقَوْلِ الْمُنَجِّمِیْنَ} ترجمہ: نجومیوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (رد المحتار:۳/۳۶۲، کتاب الصوم ، مطلب في رؤیۃ الہلال نہارا ، بیروت، قواعد الفقہ:ص۱۰۸، القاعدۃ:۲۵۷، ترتیب اللآلي :ص۹۶۱)مثال۱: شمس الائمہ حلوانی سے منقول ہے کہ وجوب صوم اور افطار صوم میں رؤیت ہلال شرط ہے ،اور اس میں نجومیوں اور حساب دانوں کا قول معتبر نہیں ہے، کیوں کہ شارع نے حساب کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ اس کو بالکلیہ لغو قرار دیاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ نحن أمۃ أمیۃ لا نحتسب، الشہر ہٰکذا أو ہٰکذا ‘‘ ہم اُمِّی لوگ ہیں،حساب نہیں جانتے، مہینہ اس طرح ہے یا اس طرح۔ (درمختار:۳/۳۵۵)مثال۲: آج کل معیار ی اخبارات ورسائل میں’’ ستاروں کے کھیل ‘‘یا ’’ستاروں کی دنیا ‘‘کے نام سے کالم جاری ہوتے ہیں ،جن میں غیبی حالات اور بھوشّیے بتلائے جاتے ہیں ،ہزاروں لوگ اس سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،بعض نجومی او رجوتشی لوگوںکے ہاتھ کی ریکھا(لکیر) میں دیکھ کر بھوشّیے بتلا تے ہیں، یہ سب من گھڑت ،اٹکل اور بے بنیاد باتیں ہیں ،اور شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ کا باعث ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’جوآدمی کاہن یا عرّاف کے پاس آکر کچھ پوچھے، اور اس کی بات پر یقین کرلے ،تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین و قرآن سے مکمل طور پر تہی دست رہ گیا ،اور اگر پوچھ لے اور یقین نہ بھی کرے ،تب بھی اس جرم کی نحوست سے چالیس دن تک اس کی کوئی نماز مقبول نہ ہوگی ‘‘۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ؎ مت یقیں کراپنے ہاتھوں کی ان لکیروںپر قسمت ان کی بھی ہوتی ہے جن کے ہاتھ ہی نہیں ہوتے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’ من أتیٰ کاہنا فصدقہ بما یقول فقد بریٔ بما أنزل علی محمد‘‘ ۔ (الجامع الصغیر في أحادیث البشیر النذیرللإمام السیوطیؒ :۲/۵۰۶، رقم الحدیث:۸۲۸۸)