الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ کے معنیٔ اصطلاحی : قاعدہ کے معنی ٔ اصطلاحی میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے، اور اس اختلاف کی وجہ مفہوم قاعدہ میں اختلاف ہے۔ کہ قاعدہ، قضیہ کلیہ ہے یا قضیہ اغلبیہ و اکثریہ ہے؟ جن لوگوں کے نزدیک قاعدہ قضیہ کلیہ ہے، انہوں نے اس کی تعریف ایسے الفاظ سے کی جو اس کے قضیہ کلیہ ہونے پر دال ہوں۔مثلاً: (۱) اَلْقَاعِدَۃُ قَضِیَّۃٌ کُلِّیَّۃٌ مُنْطَبِقَۃٌ عَلٰی جَمِیْعِ جُزْئِیَاتِہَا۔ قاعدہ وہ قضیہ کلیہ ہے جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہو۔ (التعریفات للجرجاني:ص۱۷۷) (۲) قَضِیَّۃٌ کُلِّیَّۃٌ یُتَعَرَّفُ مِنْہَا أَحْکَامُ جُزْئِیَاتِہَا۔ قاعدہ وہ قضیہ کلیہ ہے جس سے اس کی جزئیات کے احکام معلوم ہوں۔ (۳) حُکْمٌ کُلِّيٌ یَنْطَبِقُ عَلٰی جَمِیْعِ جُزْئِیَاتِہٖ یُتَعَرَّفُ أَحْکَامُہَا مِنْہُ۔قاعدہ وہ حکم کلی ہے جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہو تاکہ اس حکم کلی کے ذریعہ اس کی تمام جزئیات کے احکام معلوم ہوں۔ ان تینوں تعریفات کی عبارتیں گرچہ الگ الگ ہیں مگر معنیٰ و مطلب ایک ہی ہے، کہ قاعدہ ایسا حکم ،یا امر کلی، یا قضیہ کلیہ ہے جس سے اُن جزئیات کے احکام معلوم ہوتے ہیں، جو اس کے موضوع کے تحت مندرج و داخل ہیں، او ریہ قاعدہ ان جزئیات پر منطبق ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے قاعدہ کی مستثنیات کی جانب نظر کی انہوں نے قاعدہ کو قضیہ اغلبیہ و اکثریہ قرار دے کر اس کی ان الفاظ سے تعریف کی جو اس کے اغلبی و اکثری ہونے پر دال ہیں۔ ’’ الْقَاعِدَۃُ حُکْْمٌ اَکْثَريٌّ لا کُلِّيٌّ، یَنْطَبِقُ عَلٰی أَکْثَرِ ُجزْئِیَاتِہٖ لِتُعْرَفَ أَحْکَامُہَا مِنْہُ ‘‘۔ قاعدہ ایسا حکم اکثری ہوتا ہے نہ کہ کلی جو اپنی اکثر جزئیات پر منطبق ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان جزئیات کے احکام معلوم ہوں۔ مگر اتنی بات تو صاف ہے کہ قاعدہ کی اصطلاحی تعریف میں فقہاء کے اس اختلاف کی وجہ سے ان کی کلیت ختم نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ امام شاطبی اپنی کتاب موافقات میں رقم طراز ہیں: ’’جب قواعد کا قواعد