الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
اگرکوئی شخص ان الفاظ کے ذریعہ قسم کھائے اور شرط ایک بار پائی جائے ،تو قسم ختم ہو جاتی ہے،یعنی دوبارہ شرط کے پائے جانے سے جزا مرتب نہیں ہوتی ہے، مگر لفظ ’’کلّما‘‘ سے قسم کھانے کی صورت میں جب جب شرط کاتحقق ہوگا،تب تب جزا ثابت ہوگی، جیسا کہ مثال مذکور سے واضح ہوچکا ہے۔ٌقاعدہ(۳۷۳): {یَسْقُطُ الدَّیْنُ بِأدَائِ الْمُتَبَرِّعِ} ترجمہ: قرض ساقط ہو جاتا ہے متبرع کے ادا کر دینے سے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۴۱، القاعدۃ:۴۱۰، مسلم الثبوت)مثال: زید پر بکر کے پچیس ہزار(۲۵۰۰۰) روپئے قرض ہیں، زیدنے ابھی اس قرض کو ادا نہیں کیا، اسی اثناء میں اس کے کسی دوست ، یا کسی قریبی رشتہ دار کو یہ بات معلوم ہوئی کہ زید مقروض ہے، اور ادائیگی ٔ قرض کے لیے پریشان ہے،تو اس نے اپنی طرف سے تبرعاً یہ پوری رقم بکر کو ادا کردی، تو زید کے ذمہ سے دَین ساقط ہوجائے گا۔ٌقاعدہ(۳۷۴):{یُضَافُ الْفِعْلُ إلَی الْفَاعِلِ لا إلَی الْآمِرِ مَا لَمْ یَکُنْ مُجْبَراً} ترجمہ: فعل، فاعل ہی کی طرف منسوب ہوگا، نہ کہ آمر کی طرف،جب تک کہ اسے مجبور نہ کیاجائے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام:۱/۹۰، المادۃ :۸۹ ، قواعد الفقہ:ص۱۴۱، القاعدۃ:۴۱۱ ، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۲۶۳۷ ، شرح القواعد:ص۴۴۳)مثال: زید نے بکر کو حکم دیا کہ عمرو کی دکان کو نذر آتش کردو! بکر نے زید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عمرو کی دکان جلادی ،تو ضمان بکر پر ہی واجب ہوگا،کیوںکہ وہ فاعل ہے، نہ کہ زید پرجو آمر ہے ، ہاں! اگر بکر کو اس حکم کی تعمیل پر مجبور کیا جائے اور نہ کرنے پر تلفِ نفس یا تلفِ عضو کی دھمکی دی جائے، تو وہ شرعاً مُکْرَہ یعنی مجبورہوگا، اور ضمان زید پر واجب ہوگا جو مکرِہ یعنی مجبور کرنے والا ہے۔