الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۵۳): {اَلأمْرُبِالتَّصَرُّفِ فِي مِلْکِ الْغَیْرِبَاطِلٌ} ترجمہ: دوسرے کی ملک میں حکمِ تصرف باطل ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام :۱/ ۹۵، المادۃ:۹۵، ترتیب اللآلي:ص۳۹۷، قواعد الفقہ:ص۶۲، القاعدۃ:۵۰، شرح القواعد:ص۴۵۹ ، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ؛۳۸۱ ، القواعد الکلیۃ:ص۳۳۵)مثال: بکر نے زید کو حکم دیا کہ عمرو کا مال ضائع کردے، زید نے عمرو کے مال کو ضائع کردیا تو وہ ضامن ہوگا، کیوںکہ آمریعنی بکر کا،عمرو کے مال میں حکمِ تصرف باطل ہے، اوراس کی تعمیل، موجِبِ ضمان ہوگی۔قاعدہ(۵۴): {اَلأمُوْرُ بِمَقَاصِدِہَا} ترجمہ: کاموں کا حکم ان کے مقاصد کے مطابق ہوتاہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:۱/۱۱۳، الأشباہ والنظائر للسیوطي:۱/۳۵ ، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۹۱، ترتیب اللآلي:ص۴۱۱ ، القواعد الفقہیۃ:ص۱۰۰، ۱۳۸، ۱۴۴قواعد الفقہ:ص۶۲، القاعدۃ:۵۱، شرح القواعد:ص۴۷، جمہرۃ القواعد:۲/۶۵۶، القاعدۃ:۳۹۷)مثال: کوئی بھی کام ہو، اس پر مرتب ہونے والا حکم، اس کام کے مقصد کے مطابق ہو تا ہے، مثلاً بقصدِ علامت دراہم پر اللہ کا نام لکھنا مکروہ نہیں ہے اور بقصدِ تہاون (حقیر وہیچ سمجھنا) مکروہ ہے۔نوٹ: قاعدہ ’’ کسی بھی امر کا حکم اس کے مقصد کے مطابق ہوتا ہے ‘‘ کا اطلاق امورِ مباحہ پر ہوتا ہے، نہ کہ امورِ محرَّمہ پر۔کیوںکہ حرام اور ناجائز کام حسنِ مقصد سے جائز نہیں ہوتا ۔قاعدہ(۵۵): {الأمْرُ لِلْوُجُوْبِ مَا لَمْ تَکُنْ قَرِیْنَۃٌ خِلْافَہُ} ترجمہ: امر، وجوب کے لئے ہوتا ہے،جب تک کہ خلافِ وجوب کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ (رد المحتار:۱/۳۹۹، قواعد الفقہ:ص۶۲، القاعدۃ:۴۹)مثال: ’’نور الانوار‘‘ میں امر کی بحث میں یہ بات مذکور ہے کہ امر، اطلاق کی صورت میں وجوب پر ہی محمول ہوتا ہے اور قیامِ قرائن کی صورت میں مجازاً غیر وجوب پر بھی محمول ہو تا ہے، جیسے فرمانِ