الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ : شیخ حمویؒ فرماتے ہیں: ’’القاعدۃ کلي ینطبق علی جمیع جزئیاتہ لتصور أحکامہا منہ ‘‘۔ علامہ جرجانی ؒ(کتاب التعریفات: ص؍۱۷۱) میں لکھتے ہیں:’’ فہي(القاعدۃ) قضیۃ کلیۃ منطبقۃ علی جمیع جزئیاتہا ‘‘۔ (کتاب التعریفات :ص ۱۷۱) اور علامہ تفتازانی ؒ نے فرمایا:’’حکم کلی ینطبق علی جزئیاتہ لیتعرف أحکامہا منہ ‘‘۔ (التلویح علی التوضیح :۱/۲۰) حاصل یہ کہ قاعدہ اس جامع و کلی فقہی تعبیر کا نام ہے، جو اپنی تمام جزئیات کو محیط ہو۔ضابطہ : قاعدہ ہی کے قریب قریب ضابطہ بھی ہے، جو اپنی جزئیات کو جامع ہوتا ہے۔فرق : مگران تینوں کے درمیان فرق بھی ہے، وہ یہ کہ اصول فقہ کی حیثیت دلائل کی ہے؛ جن سے احکام کی حیثیت متعین ہوتی ہے کہ کون سا حکم کس درجہ کا ہے اور قاعدہ و ضابطہ، ہم مثل و متقارب جزئیات کو جمع کرنے والی عبارت کو کہاجاتا ہے۔ پھر ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ عبارت جو مختلف الانواع جزئیات کو جامع ہو، وہ قاعدہ ہے اور جو کسی ایک نوع کی جزئیات کو جمع کرنے والی ہو تو وہ ضابطہ ہے ۔ علامہ ابن نجیم نے لکھا : ’’ الفرق بین الضابطۃ والقاعدۃ: ان القاعدۃ تجمع فروعا من أبواب شتیٰ والضابطۃ تجمعہا من باب واحد‘‘۔ (الأشباہ و النظائر:ص۱۰۲، الفن الثاني) مثلاً:’’الیقین لا یزول بالشک‘‘قاعدہ ہے، اور حضرت نخعی کا یہ قول کہ:’’کل شيء منع الجلد من الفساد فہو دباغ ضابطۃ ‘‘… بعضوں نے یہ فرق بتلایا کہ اصول، کلی ہوتے ہیں اور قواعد وضوابط، اکثری ہوتے ہیں۔تاریخ و تدوینی پس منظر : فقہ او راصول فقہ و قواعد فقہ، یہ تینوں ہم عمر ہیں اور ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے؛نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ تینوں ہی چیزیں موجود تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذۂ