الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۲۳۴): {کَلامُ الْمُتَکَلِّمِ مَحْمُوْلٌ عَلٰی مُرَادِہٖ} ترجمہ: متکلم کا کلام اس کی مراد پر محمول ہوتا ہے۔ (جمہرۃ القواعدۃ الفقہیۃ: ۲/۸۷۷، رقم: ۱۸۱۷)مثال: اگرکوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ:’’ تو اپنے خاندان والوں کے پاس چلی جا‘‘۔ تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، مگر جب کہ اس کا ارادہ یا نیت طلاق کا ہو، تو طلاق واقع ہوجائے گی ۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ: ۶/۲۳۰) اسی طرح دیگر کنایاتِ طلاق اس قاعدہ کی مثال ہیں، کہ اگر ان الفاظ سے طلاق مراد ہو، تو طلاق واقع ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔کما في کتب الفقہ ۔قاعدہ(۲۳۵):{کُلُّ تَصَرُّفٍ جَرَّ فَسَادًا أوْ دَفَعَ صَلاحاً فَہُوَ مَنْہِيٌّ عَنْہُ} ترجمہ: ہر ایسا تصرف جو باعثِ فساد ، یا دافعِ صلاح ہووہ منہی عنہ ہے۔ (جمہرۃ القواعد:۲/۸۲۱، رقم :۱۴۵۴، القواعد الفقہیۃ:ص۱۷۷)مثال: بلا کسی فائدۂ دینی ودنیوی ،مال کو ضائع کرنا ممنوع ہے ۔ (القواعد الفقہیۃ:ص ۱۷۷) اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر آتش بازی(پٹاخے پھوڑنا)، عید بارات کے موقع پر مسجدوں اور گھروں پر چراغاں کرنا، اور اس جیسے دیگر فضول مالی تصرفات ، سب اس قاعدہ کے تحت داخل ہیں۔قاعدہ(۲۳۶): {کُلُّ جِہَالَۃٍ تُفْضِيْ إلَی الْمُنَازَعَۃِ فَہِيَ مُفْسِدَۃٌ لِلْعَقْدِ، وَإنْ عُرِفَ ذٰلِکَ فَہُوَ جَائِزٌ} ترجمہ : ہر ایسی جہالت جو مفضی الی المنازعہ ہو وہ مفسدِ عقد ہے، اور اگر وہ لوگوں کے مابین معروف ہو ، تو جائز ہے۔ (المبسوط للسرخسي:۱۲/۱۵۵)مثال ۱: آج کل مدارس اور کالجوں میں طلباء سے کھانے کی جوفیس اصول کی جاتی ہے ، گویا ان کے ساتھ کھانے کی بیع کا معاملہ کیا جاتا ہے ، اور بیع کے اس معاملہ میں مقدارِ طعام اور اس کی انواع واقسام معلوم ومتعین نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً یہ معاملہ ناجائز ہونا چاہیے،مگر چونکہ مقدارِ طعام اور اس کی انواع واقسام کی جہالت ،عرف ورواج کی وجہ سے مفضی الی المنازعہ نہ رہی، اس لیے بیع کی یہ صورت جائز ہے۔