الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
۵- حاجت اگر عمومی نوعیت کی ہو اور لوگ عام طور پر اس میں مبتلا ہوں تو یہ ضرورت کے درجہ میں آجاتی ہے ، اور اس سے نصوص میں تخصیص واستثناء کی گنجائش ہوجاتی ہے ۔ ۶- ضرورت وحاجت کی بنیاد مشقت پر ہے ، اور مشقت ایک اضافی چیز ہے ، اس لیے ضرورت وحاجت کی تعیین میں علاقہ ومقام ، احوالِ زمان ، لوگوں کی قوتِ برداشت ، مسلم اکثریتی ممالک اور ان ممالک کے لحاظ سے جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں ، فرق واقع ہوسکتا ہے ، اس لیے ہندوستان اور اس جیسے ممالک میں جہاں مسلمان اس موقف میں نہیں ہیں کہ قانون سازی کے کام میں مؤثر کردار ادا کرسکیں، ضرورت وحاجت کی تعیین میں اس پہلو کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ۷- کسی امر کے بارے میں یہ متعین کرنا کہ وہ موجودہ حالات میں ضرورت یا حاجت کا درجہ رکھتا ہے ، یہ نہایت نازک ، احتیاط اور دقتِ نظر کا متقاضی ہے، اس لیے ہر عہد کے علماء ، اربابِ افتاء کا فریضہ ہے کہ وہ واپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر طے کریں کہ اب کون سے امور ہیں جو ضرورت وحاجت کے درجہ میں آگئے ہیں، اور ان کی وجہ سے احکام میں تخفیف ہوسکتی ہے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے نازک مسئلے میں افراد واشخاص کے بجائے ایک مقتدر جماعت ہی فیصلہ کرے ، تاکہ دفعِ حرج کے نام پر اباحت کا راستہ کھلنے نہ پائے۔ ۸- محرمات کی کسی خاص صورت کو نص کے ذریعے صراحۃً یا دلالۃً حرمت سے مستثناء کردیا گیا ہو ، تو اس صورت میں حرمت باقی نہیں رہتی ہے ، اور اس صورت سے فائدہ اٹھانا واجب ہے ، اس کے علاوہ جن صورتوںمیں نص کے ذریعے یا فقہاء کے اجتہاد کے ذریعے رخصت وسہولت ثابت ہوتی ہے ، وہاں صرف رفعِ اثم ہوتا ہے ۔ ۹- ضرورت وحاجت کی بناء پر جو سہولت دی جاتی ہے ، اصولی طور پر ان کی حیثیت استثنائی ہوتی ہے۔دوسری تجویز ضرورت کی بناء پر اباحت ورخصت کا حکم حرام لعینہ از قبیلِ حق العبد، قتلِ نفس اورزنا کے ما سوا حقوق العباد ، معاملات اورتمام ابوابِ فقہیہ پر اثر انداز ہوں گے اور اس کی تاثیر کے حدوددرجۂ ذیل تفصیلات کے مطابق مختلف ہوں گے ۔