الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: جب ایامِ جنون میں پاگل کی نمازیں فوت ہوگئیں اور اسے عدمِ قضا کا حکم دیا گیاتو سننِ مؤکدہ کی قضا بھی ساقط ہو جائے گی، کیوںکہ وہ تابع ہیں اور متبوع یعنی اصل فرائض کی قضاساقط ہونے سے ان کی قضا بھی ساقط ہوگئی۔قاعدہ(۷۶): {تَأخِیْرُ الْبَیَانِ عَنْ وَقْتِ الْحَاجَۃِ لا یَجُوْزُ} ترجمہ: تاخیرِ بیان بوقتِ ضرورت،جائز نہیں ہے۔ (شرح السیرالکبیر:۴/۴۲، باب ما جاء في الغلول ، قواعد الفقہ:ص۶۷، القاعدۃ:۷۲)مثال: آقا نے اپنے غلام کو دوسرے کا مال خرید وفروخت کرتے ہوئے دیکھا اور اس وقت کچھ نہیں کہا، بلکہ خاموش رہا تو غلام ماذون فی التجارۃ ہوگا۔قاعدہ(۷۷): {اَلتَّاسِیْسُ أوْلٰی مِنَ التَّاکِیْدِ} ترجمہ: تاسیسِ کلام اس کی تاکید سے اولیٰ ہے۔ (القواعد الکلیۃ: ۲۸۸، ترتیب اللآلی:۱/۴۶۸)فائدہ : یعنی کسی کلام کو ابتداء ً واستقلالاً تسلیم کرنا، اسے کلامِ اول کی تاکید قرار دینے سے بہتر ہے۔مثال: کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا:’’ أنت طالق ، طالق، طالق‘‘۔ توطالق ثانی وثالث کو مستقل طلاق پر محمول کرتے ہوئے ، تین طلاق واقع ہوںگی، نہ یہ کہ اسے طالق اول کی تاکید قرار دے کر صرف ایک طلاق واقع ہوگی۔البتہ اگر تاکید کی نیت کی گئی تو دیانۃً تصدیق کی جائے گی، اور صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ (القواعد الکلیۃ: ۲۸۹، شامي :۴/۳۹۰، کتاب الطلاق)قاعدہ(۷۸): {اَلتَّاقِیْتُ إلٰی مُدَّۃٍ لا یَعِیْشُ فِیْہَا الإنْسَانُ غَالِبًا تَابِیْدٌ} ترجمہ: کسی عقد کو ایسی مدت کے ساتھ مقرر کرنا، جس میں غالباً انسان زندہ نہیں رہتا ہے، تابید ِعقد (ہمیشہ کے لئے عقدکرنا )ہے ۔ (الأشباہ والنظائرلإبن نجیم :ص۲۴۰ ، قواعد الفقہ:ص۶۸، القاعدۃ:۷۳)