الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: قضاء دِین، جہاد کے لئے نکلنے سے اس لئے قضاء دَین کے بعد ہی جہاد کو نکلے،اچھا ہے، اسی طرح اگر کوئی آدمی سفر حج کے لئے نکلے اور اپنی واپسی تک کا خرچ گھروالوں کو نہ دے تو اس کا یہ عمل مکروہ ہے، کیوںکہ اہل و عیال کا خرچ دینے کے بعد اگر اتنی رقم بچ جاتی ہے، جس سے حج کرسکتا ہے تو ہی حج کی ادائے گی لازم ہے، ورنہ نہیں۔قاعدہ(۲۰۷): {رَدُّ الْقِیْمَۃِ عِنْدَ تَعَذُّرِ رَدِّ الْعَیْنِ کَرَدِّ الْعَیْنِ} ترجمہ: جب عین شیٔ کا واپس کرنا ناممکن ہو تو اس کی قیمت کا واپس کرنا، عین کو واپس کرنے کی مانند ہے ۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۵، باب من الرہن یأخذہ المسلمون والمشرکون۔۔الخ ، قواعد الفقہ:ص۹۳، القاعدۃ:۱۹۰، جمہرۃ القواعد :۲/۷۹۱، القاعدۃ:۱۲۶۰)مثال: اگر کسی شخص نے اپنی کوئی چیز کسی کے پاس رہن رکھی اور وہ شی ٔمرہون اس کے پاس سے ضائع ہوگئی ،اور وہ اس کی قیمت راہن کو دیدے، تو یہ ایساہی ہے جیسے اس نے عین شی ٔواپس کی، چنانچہ وہ اس ادائیگی ٔ قیمت سے بری الذمہ ہوجائے گا۔قاعدہ(۲۰۸): {عِنْدَ التَّعْرِیْفِ بِالإشَارَۃِ یَسْقُطُ إعْتِبَارُ النِّسْبَۃِ} ترجمہ: تعریف بالاشارہ کے وقت نسبت کا اعتبار ساقط ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۲۱۴ ، باب الاستثناء في النفل والخاص منہ ، قواعد الفقہ:ص۹۳، القاعدۃ:۱۸۸)مثال۱: مجلسِ عقد میںعورت کے وکیل نے اس کی غیر حاضری میں اس کے نام میں غلطی کی، مثلاً فاطمہ بنت زید کی جگہ خالدہ بنت زید کہا، تو عدمِ تمیز کے سبب نکاح درست نہ ہوگا، لیکن اگر عورت خود مجلس نکاح میں موجود ہو اور اس کی طرف اشارہ کرکے خالدہ بنت زید کہے ، تو نکاح صحیح ہوگا، نام کی غلطی اس صورت میں مضر نہیں ہوگی، کیوں کہ اشارہ نسبت (نام) سے قوی ترہونے کی وجہ سے نسبت کا اعتبار ساقط ہوگا۔ ’’ غلط وکیلہا بالنکاح في إسم أبیہا بغیر حضورہا لم یصح للجہالۃ، إلا إذا کانت حاضرۃ وأشار إلیہا فیصح ‘‘۔ (ردالمحتار:۴/۹۶،۹۷، کتاب النکاح ، مطلب في عطف الخاص علی العام ، بیروت)