الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: دار کی بیع میں فضائِ دار، زمین کی بیع میں شُرْبِ ارض (یعنی زمین کی سیرابی کی باری) وغیرہ کی بیع درست ہے، اگر چہ کوئی شخص محض فضاء دار یا محض شربِ ارض کی بیع کرے ، تو درست نہیں ہے۔قاعدہ(۲۲۶): {قَدْ یَثْبُتُ الْفَرْعُ مَعَ عَدَمِ ثُبُوْتِ الأصْلِ} ترجمہ: کبھی بدونِ ثبوتِ اصل، فرع ثابت ہوجاتی ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۹۸، القاعدۃ:۲۱۰ ، شرح القواعد :ص۴۱۱ ، درر الحکام :۱/۸۱ ، المادۃ :۸۱ ، القواعد الکلیۃ :ص۳۰۹)مثال: اگرکوئی شخص یوں کہے کہ زید کے عمرو کے ذمہ ایک ہزار روپئے ہیں اور میں اس کا ضامن ہوں، اور عمرو اس کا انکار کرے تویہ ہزار روپئے کفیل پر واجب ہوںگے، جب زید بھی اس کا دعوی کرے، اصیل ( عمرو) پر واجب نہیں ہوںگے۔قاعدہ(۲۲۷): {اَلْقَلْبُ حَکَمٌ فِیْمَا لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ ظَاہِرٌ یُوْجِبُ الْعَمَلَ بِالظَّاہِرِ} ترجمہ: جس چیز کے متعلق دلیل ظاہر نہ ہو، وہاں قلب فیصل ہوتا ہے، ظاہر کے مطابق عمل کو واجب کرتا ہے ۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۔۱۷۳، باب ما ینبغي للمسلمین نصرتہ وبمن یبدأون ، قواعد الفقہ:ص۹۸، القاعدۃ:۲۱۴)مثال: اکثر مجاہدین کا یہ خیال ہو کہ سرحدی مسلمان ان کی مدد نہیں کریں گے، بلکہ ان کے مد مقابل ہوں گے تو مجاہدین پر واجب ہے کہ وہ اہل حرب کی لڑائی سے واپس ہوں اور اکبر رائے پر عمل کریں، کیوںکہ جہاں دلیل ظاہری نہ ہو، وہاں قلب ہی فیصل ہوتا ہے۔قاعدہ(۲۲۸): {قَوْلُ الْمُتَّہَمِ لا یَکُوْنُ حُجَّۃً} ترجمہ: متّہم کا قول دلیل نہیں ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۲۰۸، باب الأمان ، قواعد الفقہ:ص۹۹، القاعدۃ:۲۱۷)مثال۱: کوئی حربی مسلمانوں کے درمیان پایا گیا اور وہ کہے کہ میں امان لے کر داخل ہوا ہوں تو اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، کیوںکہ وہ متّہم ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۹۸)