الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
عمداً؟ اگروہ کہے کہ سہواً؛ تو وہ جواب دے کہ نماز فاسد نہیں ہوئی، بناء کر سکتا ہے، اخیر میں سجدۂ سہو کرلے، اور اگر وہ یہ کہتا ہے کہ عمداً پھیر دیا تھا تووہ یہ جواب دے کہ نماز فاسد ہوگئی۔مثال ۲ : اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اس نے بحالتِ صوم کھانا کھالیا، کیا اس سے روزہ فاسد ہوتاہے؟ تواس سے یہ پوچھا جائے کہ عمداً کھایا یا سہواً ؟اگر وہ یہ کہتا ہے کہ عمداً، تو اسے یہ جواب دیاجائے کہ روزہ فاسد ہوگیا، اگر رمضان کا ادا روزہ تھا تو قضا مع الکفارہ واجب ہے ،اور اگر وہ یوں کہتا ہے کہ سہواً ، تو اسے یہ جواب دیا جائے کہ روزہ فاسد نہیں ہوا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ أطعمک اللہ وسقاک‘‘ ۔’’اللہ نے تجھے کھلایا پلایا‘‘۔مثال۳: کسی نے پوچھا کہ ایک آدمی نے زنا کیا، اس کی سزا کیا ہوگی؟ تو اس سے یہ دریافت کیا جائے کہ زانی شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ؟ اگر وہ کہے کہ شادی شدہ ہے ،تو اسے یہ جواب دیا جائے کہ زانی کو رجم یعنی سنگسار کرنا واجب ہے، اور اگر وہ یہ کہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، تو اسے یہ جواب دیا جائے کہ زانی کو سو کوڑے لگانا واجب ہیں، اس طرح کی اور بہت سی نظیریں ہوسکتی ہیں۔(۱۳) {اَلأصْلُ أنَّ السُّؤَالَ وَالْخِطَابَ یَمْضيْ عَلٰی مَا عَمَّ وَغَلَبَ لا عَلٰی مَا شَذَّ وَنَدَرَ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ سوال وخطاب، شی ٔ عام وغالب پر جاری ہو تا ہے،نہ کہ شاذ ونادر پر۔مثال: کسی شخص نے قسم کھائی کہ میں غذا نہیں کھائوں گا ،اور وہ بلادِ عرب کا رہنے والا ہے ،تو صرف دودھ کے استعمال سے ہی وہ حانث ہو گا،اس لیے کہ غذا کا اطلاق بلادِ عرب میں صرف اورصرف دودھ پر ہی ہوتا ہے، نہ کہ کسی اور شیٔ پر، البتہ عجم یعنی بلادِ غیر عرب میں ایسا نہیں ہے، اس لیے اگر حالف غیر عرب ہو تو وہ اس چیز کے استعمال سے حانث ہوگا جو اس کے اپنے علاقہ میں بطور غذا استعمال کیجاتی ہے ۔فائدہ: ہر قوم کی غذا وہی کہلائے گی، جو متعارف ہو۔