الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
یہ حدیث اپنے مختصر الفاظ کے باوجود اپنے اندر اس قدر جامعیت رکھتی ہے کہ ہر نشہ آور چیز کی حرمت کو ثابت کرتی ہے، خواہ وہ انگور سے بنی ہو، یا غیرانگور سے، سیال ہو یا جامد (جیسے بھنگ، چرس، گانجاوغیرہ) زمین سے اگتی ہو یا کسی حیوان سے حاصل ہوتی ہو۔ یا پھر اس ترقی یافتہ دور میں مختلف کیمیکلس وغیرہ سے بنائی جاتی ہو۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:’’ لا ضَرَرَ وَلا ضِرَارَ‘‘۔ یہ قاعدہ کلیہ کبریٰ ہے، یہ حدیث کسی کو ضرر پہونچانے یا تکلیف دینے کی تمام انواع و اقسام اور اس کی صورتوں کو حرام قرار دیتی ہے، کیوںکہ حدیث میں’ ’لا‘‘ نافیہ، مفید ِاستغراقِ جنس ہے، گرچہ حدیث بطور خبر وارد ہے، مگر نہی کے معنی میں ہے۔ تو حدیث کا معنی و مطلب یہ ہوگا کہ ہر ضرر و ضرار کو چھوڑ دو۔ (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:’’ اَلْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی شُرُوْطِہِمْ اھـ۔۔ مسلمانوں پر اپنی شرطوں کا پاس و لحاظ لازم ہے۔ ( ابوداؤد:۵۰۶، ترمذی:۱/۲۵۱) حدیث پاک کا یہ مطلب ہے کہ متعاقدین (معاملہ کرنے والے دو شخص یا اس سے زائد) باہم جن شرطوں پر راضی ہوں، ان پر ان شرطوں کا احترام واجب ہے۔سوائے ان شرطوں کے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دیں۔ قسم ثانی: وہ قواعد جن کا مصدر منصوص نہیں ہے ۔ ان کی کئی ایک قسمیں ہیں: ۱- (قسم اول): وہ قواعدِ فقہیہ جنکا مصدر اجماع ہے ۔ جو کتاب اللہ اور سنت ر سول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف منسوب ہے۔ مثلاً:(۱)’’ لا اِجْتِہََادَ مَعَ النَّصِّ‘‘۔ نص کے ہو تے ہوئے کوئی اجتہاد اور قیاس قابل قبول نہیں ۔ یہ قاعدہ اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ جس مسئلہ کے حکم میں کتا ب اللہ، یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اجماع امت کی کوئی صراحت موجود ہو تو اس کے حکم کو ثابت کرنے کے لئے اجتہاد کرنا حرام ہے ، کیوںکہ اجتہاد کی ضر ورت نص کی عد م موجو دگی کی صورت میں ہواکرتی ہے، جب نص موجودہے تو قیاس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاںفہمِ نص اور دلالتِ نص میں اجتہاد کی ضر ور ت ہے۔