الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
بہر حال قواعدِ فقہیہ کا یہ جداگانہ علم بھی ہمارے فقہاء و مجتہدین کے افکار وخیالات اور ان کے زرخیز ذہن و دماغ کی ایک ایسی پیداوار ہے، جس نے تمام الجھی ہوئی فقہی گتھیوں کے سلجھانے اور ان کو زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس راز سے پر دہ اٹھانا تو بہت ہی مشکل ہے کہ اول اول کس فقیہ و مجتہدنے ان قواعد کو رائج کیا اور مسائل کو یاد رکھنے اور ان کو مرتب کرنے میں ان سے مدد حاصل کی، البتہ ایک قصہ ابن نجیمؒ نے اپنی کتاب ’’الاشباہ و النظائر‘‘ میں لکھا ہے؛ جس کا ذکر یہاں دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ایک بار کسی طرح امام ابوطاہر الدباس کے شافعی معاصر امام ابو سعید الہروی کو معلوم ہوگیا کہ ابوطاہر الدباس نے ایسے سترہ قواعد مستنبط کئے ہیں، جن کی بنیاد پر امام اعظمؒ کے جملہ اجتہادات تک بسہولت رسائی ہوسکتی ہے؛ ابوسعید ہروی اس علمی راز کاپتہ چلانے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے؛ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ابوطاہر دباس نابینا ہیں، اس لئے وہ نہ قواعد کو قلم بند کرسکتے ہیں اور نہ ان کی تشریحات اور ان کے تحت آنے والے احکام لکھ سکتے ہیں؛ اس لئے بھول جانے کے خطرہ کے پیشِ نظر وہ روزانہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد جب مسجد خالی ہوجاتی ہے تو وہ اندر سے دروازہ بند کرکے ان کو زبانی دہراتے ہیں؛ یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد ابوسعید ہرویؒ چل کر ابوطاہر دباس کے وطن پہنچے ، رات کو خاموشی سے مسجد میں گئے اور نمازِ عشاء کے بعد ایک چٹائی میں لپٹ کر بیٹھ گئے؛ ابوطاہرؒ نے حسبِ عادت اندر سے مسجد بندکرلی اور قواعد کو دہرانا شروع کیا ،جیسے جیسے وہ اپنے قواعد دہراتے جاتے تھے، ابوسعیدبھی خاموشی سے ان کو یاد کرتے جاتے تھے؛ ابھی سات ہی تک پہنچے تھے کہ غالباً چٹائی میں لپٹنے کی وجہ سے ان کو کھانسی آگئی، ابوطاہر کو پتہ چل گیا کہ آج کوئی ان کا علمی کارنامہ ان سے اچک لینے کی غرض سے آپہنچا ہے؛ چنانچہ انہوں نے اس علمی گھس پیٹھیے کی مرمت کی اور مسجد سے نکال باہر کیا اور آئندہ کے لئے یہ معمول ختم کردیا؛ ابوسعید ہروی نے ان سات قواعد پر اکتفاء کرنے میں خیریت سمجھی اور واپس آکر اپنے شاگردوں کو ان کی تعلیم دینے لگے۔