الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مسائل وتحقیقات کا اتنا بڑا ذخیرہ تیار کردیا، جو بڑی بڑی منظم جماعتیں اور علمی ادارے بھی آسانی سے نہیں کرسکتے؛ امام ابوحنیفہؒ نے (۸۳) تراسی ہزار مسائل اپنی زبان سے بیان کئے، جن میں (۳۸) اڑتیس ہزار عبادت سے تعلق رکھتے ہیں اور (۴۵) پینتالیس ہزار معالات سے۔ جس طرح امام ابوحنیفہؒ نے اتنے ہزار مسائل اپنی خدا داد ذہانت سے قرآن و حدیث پر غور وخوض کر کے بیان فرمائے ہیں، ایسے ہی دوسرے ائمۂ عظام نے بھی اسی کثرت سے مسائل استنباط کرکے بیان فرمائے ہیں؛ ظاہر بات ہے کہ اتنے تمام مسائل کو ایک دوسرے سے مربوط رکھنے اور ان کو مختلف ابواب اور خانوں میں تقسیم کرنے اور ان کو یاد رکھنے اور مرتب کرنے کے لئے کچھ بڑے بڑے اہم قاعدوں اور نکات کی ترتیب و تشکیل کی ضرورت پڑی؛ چناںچہ تدوینِ فقہ کی طرح یہ کام بھی بڑی ذہانت، بیدار مغزی، قوتِ حفظ، مشق و مزاولت اور علمی مہارت اور تجربہ کا متقاضی تھا؛ چناںچہ اس کام کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے ذہن رسا اور ماہرینِ فقہ کو پیدا کیا، جنہوں نے فقہ کی تدوین کی طرح قواعد الفقہ الاسلامی کی تدوین کے کام کو بھی بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور گویا اس طرح صحیح معنوں میں سمندر کو کوزہ میں بھر دیا۔ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں (جب ائمۂ مجتہدین اصولِ فقہ کی تدوین میںمصروف تھے) تعبیر قانون کے اصول کو مرتب کیا جا رہا تھا اورقرآن مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ جزئی احکام کے پردے میں پوشیدہ کلیات کی دریافت کا کام زور وشور سے جاری تھا، یہی زمانہ تھا جب قواعد کلیہ کے علم کی بیناد بھی رکھی جاچکی تھی؛ امام ابو یوسف (م ۱۸۲ھ) امام محمد ابن حسن شیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) اور امام محمد ابن ادریس شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) کی فقہی تالیفات میں ایسے قواعد بکھرے ہوئے ہیں، جن کو بعد میں آنے والے فقہاء نے مرتب کیا اور ان کی بنیاد پر علم قواعد کلیہ کو باقاعدہ شکل دی؛ جوں جوں یہ حضرات فقہی اصول وکلیات کو مرتب کرتے گئے، قواعد کلیہ اور ضوابط فقہیہ نکھر نکھرکر سامنے آتے گئے۔ اگرچہ سرِ دست یہ کہنا مشکل ہے کہ دوسری صدی ہجری کے جن مجتہدین کی تحریروں میں ایسے کلیات بکھرے ہوئے ملتے ہیں، انہوں نے ان کو بالارادہ قواعدِ کلیہ ہی کی حیثیت میں مرتب کیا تھا؛ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کے زمانہ میں قانونِ اسلامی کے اصول وکلیات کی تنقیح کا اتنا کام ہوچکا تھا کہ تیسری صدی ہجری کے فقہاء کے لئے قواعدِ کلیہ کے نام سے ایک جدا گانہ علم کی تدوین ممکن ہوسکی۔