الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
وقت مسائل فقہ کے مدون و مستنبط کرنے اور کتابوں کے لکھنے میں مصروف رہتے تھے، کبھی سوتے ہی نہ تھے؛ انہیں ہر دم یہ احساس بے چین کئے رہتا تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں اس اطمینان کے ساتھ سوتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوگا تو امام محمدؒ اس کا حل فرمادیں گے، اب اگر میں بھی سوجائوں تو مسائل کا حل کون کرے گا؟ اس لئے بیچارے کبھی سوتے ہی نہ تھے۔ فقہ حنفی کے مشہور مصنف اور مفتی حضرت علامہ محمد امین ابن عمر ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۹۸ء تا۱۲۵۲ء) نے کل چوپن سال کی عمر پائی، لیکن اس چوپن سال کی عمر میں انہوں نے فقہ کا وہ سرمایہ اور خزانہ جمع کردیا ہے کہ اگر ہم اس کو آج پورا پڑھنا چاہیں تو اس کام کی تکمیل کے لئے ہماری کئی عمریں ختم ہوجائیںاور ہم ان تمام دفاتر کے مطالعہ سے عاجز و قاصر رہ جائیں۔ پس آپ دیکھئے فقہ کی تدوین، مسائل کا استنباط واستخراج، جزئیات و فتاویٰ کی ترتیب؛ اسلام کی ایسی عملی ضرورت تھی، جس کی تکمیل ہمارے فقہاء نے بالکل شروع میں ہی کردی؛ اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر شام، عراق، مصر وایران اور دوسرے وسیع اور زرخیز ملکوں میں پہنچ گیا؛ معاشرت، تجارت، انتظامِ ملکی؛ سب بہت وسیع اور پیچیدہ شکلیں اختیار کرتے چلے گئے؛ اس وقت ان نئے حالات ومسائل میں اسلام کے اصول کی تطبیق کے لئے بڑی اعلیٰ ذہانت، معاملہ فہمی، باریک بینی، زندگی اور سوسائٹی سے وسیع واقفیت، انسانی نفسیات اور اس کی کمزور یوں سے باخبری، قوم کے طبقات اور زندگی کے مختلف شعبوں کی اطلاع اور اس سے پیشتر اسلام کی تاریخ وروایات اور روح وشریعت سے گہری واقفیت، عہدِ رسالت اور زمانۂ صحابہ کے حالات سے پوری آگاہی اور اسلام کے پورے علمی ذخیرے (قرآن وحدیث اور لغت وقواعد) پر کامل عبور کی ضرورت تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و کرم تھا اور اس امت کی اقبال مندی کہ اس نے امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰ھ) جیسا یگانۂ روزگار فقیہ، محدث اور متکلم پیدا کیا؛ جو اپنی ذہانت، دیانت، اخلاص اور علم میں تاریخ کے ممتاز ترین افراد میں شامل ہیں؛ امام اعظمؒ نے اپنے موضوع پر تنِ تنہا اتنا زبر دست کام کیا اور