الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
’’ إن الفقہ في الزمان القدیم متناولًا لعلم الحقیقۃ وھي الالھیات من مباحث الذات والصفات ، وعلم الطریقۃ وھي المباحث المنجیات والمھلکات وعلم الشریعۃ الظاہر ۃ‘‘ نیز سر خیل ائمہ امام اعظم ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف فرمائی کہ’’الفقہ معرفۃ النفس مالہا وما علیھا‘‘ یعنی ان چیزوں کی تعریف جن سے دارین میں نفس کو نفع یا نقصان پہو نچے فقہ کی اس جامع تعریف کے ضمن میں عقائد واحکامات سب شامل ہوجاتے ہیں گو یا جو اسلام مسلمان سے مطلوب ہے وہ ہرقول وعمل کا مطابق شریعت ہونا ہے اور یہی جمیع اولاد آدم کیلئے قانون حیات ہے ۔ اس فقہ کی کچھ اساس اور بنیادیں ہیں جس کی روشنی میں علماء سابقین اور مجتہدین نے مسائل کو متفرع کیا ہے جو ر فتار زمانہ وتغیر ات احوال کے پیش نظر جدید اورکرنٹ مسائل میں بھی رہنماء اصول ہیں، ان اصول سازی وضابطہ بیانی کا ماخذ اول قرآن مقدس ہی ہے اس لئے اصولیین کا یہ طرز نہ صر ف قابل تحسین بلکہ قابل تقلید ہے کہ انہوںنے جو کچھ بیان کیا یا کرتے ہیں وہ ماخذ اصلی قرآن وسنت کی روشنی میں ہی کرتے ہیں ۔ اگر آیات قرآنی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہو نچنا آسان ہے کہ اس کا ایک ایک جز اپنے اندر اصل کی حیثیت رکھتا ہے تاہم ’’مشتے نمونہ از خر وارے‘‘ کے طور پر اوامر و نواہی کے باب میں قرآن نے خبر دی کہ:{ما جعل اللہ علیکم في الدین من حرج} اور{یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر}ان ہر دو آیت کے ذریعہ یہ اصول مستخرج ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے مومنوں پر دین کے سلسلہ میں کوئی دشواری اور حرج نہیں رکھا، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دین میں تکلیف مالایطاق نہیں ہے۔ نیز ما لایطاق یعنی عدم تکلیف کا یہ اصول کتاب اللہ کی طرح سنت رسول سے بھی مستنبط ہے۔ چناںچہ ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو مخاطب فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ یسرا ولا تعسرا بشرا ولا تنفرا‘‘ نیز ’’ لو لا أن أشق علی أمتي لأمرتہم بالسواک عند کل صلوۃ ‘‘ سے ، اور’’ إنما ہلک من کا ن قبلکم بکثرۃ السؤال واختلافہم علی أنبیائہم‘‘سے بھی عدم حرج کے اصول کا پتہ چلتا ہے۔…ان طویل مثالوںسے یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جتنے قواعد بھی فقہ سے متعلق ہیں ان کا سرچشمہ اور منبع کتاب وسنت ہیں۔