الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال محمول علی النسخ : حضرت امام نسفیؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ کے نزدیک فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے اس کی سنت کو اداکرنا جائز ہے ، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابی ٔرسول حضرت قیسؓ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد اس کی سنتوں کو ادا کرتے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ ’’یہ دورکعتیں کیسی؟‘‘ میں نے عرض کیا:فجر سے پہلے کی سنت ادا نہیں کی تھی، اس لیے اب اسے ادا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اور کوئی نکیر نہیں فرمائی‘‘۔ اسی روایت سے حضرت امام شافعیؒ نے استدلال فرمایا کہ آپ کا سکوت فجرکے بعد اداء سنت کے جواز کو ثابت کرتا ہے۔ حضرت امام نسفیؒ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث منسوخ ہے ،اور ناسخ وہ روایت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرما یا:’’ لا صلاۃ بعد الفجر حتی تطلعَ الشمسُ ولا بعد العصرِ حتی تغربَ الشمس‘‘۔ ’’فجر کے بعد کوئی نماز صحیح نہیں، یہاں تک کہ سورج نکل آئے ،اسی طرح عصر کے بعد کوئی نماز صحیح نہیں، یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے‘‘ ۔مثال معارضہ: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر فجر میں قنوت پڑھتے رہے ، اور حضرت انسؓ ہی سے دوسری روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ قنوت پڑھی، پھر اس کو ترک فرمایا۔ اب ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے ،اور ضابطہ ہے کہ:’’ إذا تعارضا تساقطا ‘‘۔ ’’جب دو دلیلیں باہم متعارض ہوں تو دونوں ساقط الاعتبار ہوتی ہیں‘‘۔ اور احناف کے نزدیک حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی روایت بطورِ دلیل موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو مہینے تک قنوت پڑھی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عرب قبائل کے حق میں بددعا فرمائی، پھراسے ترک فرمایا۔ احناف کے نزدیک فجر کے طلوعِ شمس سے پہلے اداء سنت کے عدم جواز پر دلیل موجود ہے،اور شوافع کے نزدیک نہیں، اور جودلیل تھی وہ تعارض کا شکار ہوکر ساقط الاعتبار ہوگئی،اس لیے احناف کا قول راجح ہے۔