الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
المحظورات ‘‘ ایک قاعدہ ہے اور اس کا ماخذ آیت کریمہ:{فمن اضطر في مخمصۃ غیر متجانف لإثم فإن اللہ غفور رحیم} ہے اور اسی طرح ایک قاعدہ ہے: ’’ الأمور بمقاصدہا ‘‘ اس کی اصل حدیثِ نبوی ’’ إنما الأعمال بالنیات ‘‘ ہے۔ معلوم ہوا کہ فقہاء کی یہ قواعد سازی صرف تسہیل و تقریب کے درجہ کی ایک کوشش ہے، چوںکہ ہر موضوع پر نصوص صریحہ کا ملنا مشکل ہے اور بعض نصوص غیر صریحہ ہونے کی بنا پر مشکل الانطباق ہوتی ہیں، اس لئے قواعد کی ضرورت سامنے آئی اور فقہاء نے اسے روبہ عمل لاکر امت کـے لئے ایک سہولت پیدا کردی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قواعد الفقہ کی بنیاد دور نبوی و دور صحابہ و تابعین ہی میں پڑچکی تھی، جس کو ائمۂ مجتہدین اور ان کے اصحاب و متبعین نے مناسب شرح و بسط کے ساتھ مرتب انداز میں پیش فرمایا؛ سب سے اول شیخ ابوطاہر دباس نے ۱۷؍ قواعد بنائے، جن میں پانچ قاعدے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں: (۱) الأمور بمقاصدہا، (۲) الضرر یزال، (۳) الیقین لا یزول بالشک ، (۴) المشقۃ تجلب التیسیر، (۵) العادۃ محکمۃ ۔ پھر شیخ ابوالحسن کرخی نے ۳۸؍ اصول پر ایک رسالہ تحریر کیا، امام کرخی کے بعد شیخ ابو زید دبوسی نے ’’تاسیس النظر‘‘ نامی کتاب لکھی، جن میں ۷۷؍ قواعد کو جمع کیا؛ ان دونوں حضرات نے ان قواعد کو ’’الأصل‘‘ ’’الأصل‘‘ کے الفاظ میں ذکر فرمایا ہے، مثلاً امام کرخی نے فرمایا: ’’الأصل أن الاحتیاط في حقوق اللہ تعالیٰ جائز وحقوق العباد لا یجوز‘‘ اور امام دبوسی نے فرمایا: ’’ الأصل عند أبي حنیفۃ أن المحرم إذا أخر النسک عن الوقت الموقوت لہ أو قدمہ لزمہٗ دم‘‘… اس کے بعد تو بہت ساری کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی، جن میں علامہ ابن نجیممصری کی ’’الأشباہ والنظائر‘‘ کو جامعیت کی حیثیت حاصل ہوئی اور ابھی ماضی قریب میں بلکہ حال ہی میں مفتی عمیم الاحسان صاحب مجددی برکتی نے ان اصولوں کوبعض دوسرے اضافات کے ساتھ بنام ’’مجموعۃ قواعد الفقہ ‘‘ شائع کیا ہے اور ماشاء اللہ بہت خوب کام کیا ہے، فجزاہم اللہ عنا خیرا۔ (القواعد الفقہیۃ للشیخ أحمد علی الندوی ومجلۃ صفا فقہ نمبر حذفاً وزیادۃً)