الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قول احوط ہے،اور اگر کراہت امر خارجی کے سبب سے ہو تو نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے،مثلاً قرأت کی دورکعتوں میںسورت کو خلافِ ترتیب پڑھا(جیسے پہلی رکعت میں سورۂ قریش اور دوسری رکعت میں سورۂ فیل پڑھ لی) یا ریشمی کپڑا پہن کر نماز پڑھی تو اعادہ واجب نہیں ہے۔ ما في ’’الدر المختار‘‘: (لھا واجبات) لا تفسد بترکھا وتعاد وجوباً في العمد والسھو إن لم یسجد لہ ، وإن لم یعدھا یکون فاسقاً آثماً ، وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم تجب إعادتھا ، والمختار أنہ جابر للأول لأن الفرض لا یتکرر ۔ (۲/۱۴۶، مطلب واجبات الصلاۃ) ما في ’’فتح القدیر‘‘: ولا إشکال في وجوب الإعادۃ إذ ھو الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم ویکون جابراً للأول لأن الفرض لا یتکرر وجعلہ الثاني یقتضي عدم سقوطہ بالأول وھو لازم ترک الرکن لا الواجب ۔ (۱/۳۰۸ ، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ) ما في ’’البحر الرائق‘‘: وعن السرخسي : من ترک الاعتدال تلزمہ الإعادۃ ، ومن المشایخ من قال تلزمہ ویکون الفرض ھوالثاني ولا إشکال في وجوب الإعادۃ إذ ھو الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم یکون جابراً للأول لأن الفرض لا یتکرر وجعلہ الثاني یقتضي عدم سقوطہ بالأول وھو لازم ترک الرکن لا الواجب ۔ (۱/۵۲۳ ،کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ) ما في ’’حاشیۃ الطحطاوي‘‘: وإن ترکہ الواجب عمداً ثم ووجب علیہ إعادۃ الصلاۃ تغلیظاً علیہ لجبر نقصھا فتکون مکملۃ وسقط الفرض بالأولی وقیل تکون الثانیۃ فرضاً فھي المسقطۃ ۔ (ص۴۶۲ ، باب سجود السھو، المسائل المہۃ فیما ابتلت بہ العامۃ:۲/۸۱،۸۲)