الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ضرورت کی جو تعریف علامہ شاطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے کی ہے ، اس صورت میں ضرورت کا تعلق حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں سے قائم ہوجاتا ہے ، او ران صورتوں کو بھی شامل ہوجاتا ہے ، جب کہ ہلاکت کا اندیشہ تو نہ ہو لیکن شدید ضرر ومشقت درپیش ہو، حقیقت یہ ہے کہ اگر صاحبِ ہدایہ اور دوسرے فقہاء کے اطلاقات اور خود اصولیین کے یہاں ضرورت کی تعبیرات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے حکم اضطرار کو سامنے رکھ کر فقہاء نے ایک اصول قراردیتے ہوئے ضرورت کو ایک وسیع تر اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کیا ہے ۔ اس دوسر ی تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ شریعت کے بنیادی مقاصد پانچ ہیں : حفظِ دین ، حفظِ نفس ، جسم ، جان وعزت او ر آبرو، حیثیتِ عرفی اور عزتِ نفس بھی شامل ہے ، حفظِ نسل ، حفظِ مال ، حفظِ عقل ، ان مقاصدِ خمسہ کا نفسِ حصول اور بقاء جن امور پر موقوف ہو وہ ضرورت ہیں ، اس طرح ضرورت صرف جان بچانے ہی کا نام نہیں ، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کی اساسیات ضرورت میں شامل ہیں ۔ نیز اب ضرورت اضطرار کی طرح محض وقتی اور ہنگامی حکم ہی نہ ہوگی بلکہ مختلف شعبہائے حیات سے متعلق بنیادی احکام بھی ضرورت میں داخل ہیں ،جیسے حفظِ دین سے متعلق ضروریات میں عقائد ، اسلام کے ارکانِ اربعہ ، دعوت الی اللہ ، جہاد ۔ حفظِ نفس کی ضروریات میں حالتِ اضطرار واکراہ میں محرمات کی اجازت ، ضروری خورد ونوش اور لباس ورہائش کا انتظام ، قصاص ، دیت ، خود کشی کی ممانعت ، نکاح جو افزائشِ نسل کا ذریعہ ہے ، کی اجازت ۔ حفظِ عقل کی ضروریات میں مسکرات کی حرمت ۔ حفاظتِ نسل کی ضروریات میں حدِزنا کا اجراء اور زنا کی حرمت۔ حفاظتِ مال کی ضروریات میں کسبِ معاش کی اجازت ، چوری اور خیانت کی حرمت ، مال کا قابلِ ضمان ہونا، سودکی حرمت ، یہ سارے احکام داخل ہیں۔ غرض فقہاء کے یہاں ضرورت محض کیفیتِ اضطرار کانام نہیں ، بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اساسیات اور ان کے تحفظ کے لیے دیئے گئے مستقل اور عارضی احکام سبھی ضرورت میں داخل ہیں۔