الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ہاں !جب محاربین میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے پاس اپنا مال امانۃً رکھے تو مسلمانوں کے لئے حلال نہیں کہ وہ اس کے مالِ امانت میں سے کوئی چیزلے لے، کیوںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ اَلْعَہْدُ وَفَائٌ وَلا غَدَرَ فِیْہِ ‘‘ عہد کو پورا کرنا ضروی ہے، اس میں غدار ی درست نہیں ہے۔مثال۲: حضرت سعید بن ذی حُدّان سے ذکر کیا گیا وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس شخص نے خبر دی جس نے حضرت علی سے سنا، وہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنگ محض ایک چالبازی کا نام ہے، اور اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پر کہ مجاہد کے لیے میدانِ کارزار میں اپنے مد مقابل کے ساتھ چالبازی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ چالبازی غدر اور دھوکہ دہی میں شمار نہ ہوگی۔اور بعض علماء اس حدیث کے ظاہر سے استنباط کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ بحالتِ جنگ کذب کی رخصت ہے، اور وہ اپنا مستدل حضرت ابوہریرہؓ کی اس حدیث کو بناتے ہیں ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کذب صرف تین مواقع میں مناسب ہے: ’’(۱) دو شخصوں کے مابین صلح ، (۲) قتال، (۳) آدمی کا اپنے اہل کو خوش کرنا ‘‘۔ ذکر عن سعید بن ذي حُدّان قال : أخبرني من سمع علیاً رضي اللہ تعالیٰ عنہ یقول : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ الحرب خدعۃ ‘‘ أو خدعۃ بالنصب، وکلاہما لغۃ : وفیہ دلیل علی لا بأس للمجاہد أن یخادع قرنہ في حالۃ القتال، وإن ذلک لا یکون غدراً منہ ، وأخذ بعض العلماء بالظاہر فقالوا : یرخص في الکذب في ہذہ الحالۃ ، واستدلوا بحدیث أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : لا یصلح الکذب إلا في ثلاث ، في الصلح بین اثنین ، وفي القتال وفي إرضاء الرجل أہلہ ، والمذہب عندنا أنہ لیس المراد الکذب المحض ، فإن لہ ذلک رخصۃ فیہ ۔ (شرح السیر:۱/۸۵)