الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
جب کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ احرام میں حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمایا تھا، آپ کے اس فعل سے نکاح فی حالۃ الاحرام کا اثبات ہورہا ہے، لہذا اثبات کو نفی پر مقدم کیا جائے گا، یعنی حالتِ احرام میں نکاح کرنا درست ہوگا،کیوں کہ قاعدہ ہے: ’’ الإثبات مقدم علی النفي الخ‘‘۔ (ہدایہ:۲/۳۱۰)فائدہ: عند الاحناف محرم ومحرمہ کے لیے بحالتِ احرام نکاح جائز ہے ، برخلاف امام شافعی کے،کہ ان کے نزدیک جائز نہیں ہے، احناف کی دلیل حضرت ابن عباس ؓکی یہ روایت :’’ تزوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میمونۃ وہو محرم ‘‘۔ہے، جب کہ حضرت امام شافعیؒ کی دلیل حضرت عثمان ابن عفانؓ کی یہ روایت :’’لا ینکح المحرم ولا ینکح ولا یخطب‘‘۔ہے۔ اب ان دو روایتوں میں تعارض ہوا، ایک روایت بحالتِ احرام جواز نکاح کو ثابت کررہی ہے، اور دوسری روایت عدمِ جواز کو ، اور یہاں احرام اصل ہے اور نفی کاتعلق اصل سے ہے، لہذا اثبات نفی پر مقدم ہوگا، کیوں کہ قاعدہ ہے: الإثبات مقدم علی النفي الخ۔ (ہدایہ:۲/۳۱۰)مثال۳: مرد عورت سے یوں کہے کہ: جب تمہیں نکاح کی خبر پہنچی تو تم خاموش رہی، اور عورت کہے : نہیں بلکہ میں نے رد کیا، تو یہاں اصل سکوت ہے ، اور عورت اصل کی نفی کررہی ہے ، لہذا مرد کا قول معتبر ہوگا ۔ (ہدایہ:۲/۲۹۵)مثال۴: وضو کے بعد اعضاء وضو کو تولیہ سے صاف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور ایک قول کے مطابق مکروہ ہے، قائلین کراہت کے نزدیک کسی نقلِ صحیح کے نہ ہونے کی وجہ سے عدمِ کراہت ہی مقدم ہوگی ۔ جواز التنشیف بالمندیل عندنا لا بأس ، وقیل یکرہ ، وفي بعض ما قالہ نظر، لأن المثبت مقدم علی النافي ، وماء الوضوء یوزن سواء نشف أو لم ینشف …… ولا معنی للکراہۃ إذا ثبت فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو مرۃ ، وعدم تسبیح ماء الوضوء إذا نشف یحتاج إلی نقل صحیح ۔ (الکلام الجلیل فیما یتعلق بالمندیل :ص۶، رسالہ نمبر:۶، مجموعۃ رسائل اللکنوی:۵، إدارۃ القرآن کراتشي)