ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
كرتے ہیں وہ بعینہ مامور نہ نہیں نہ وہ اصل مقصود ہے بلکہ مقصود ہے بلکہ مقصود کا ذریعہ ہیں جومحض تدابیر کے درجہ میں ہے جیسے طبیب جسمانی کی تدابیر کہ ان کوکوئی بدعت نہیں کہہ سکتا ۔ اسی طرح مشائخ کی تجویزات اوران کے علاج کو جوکہ محض تدابیر کے درجہ میں ہیں نہ عبادت کہہ سکتے ہیں نہ بدعت اوریہ ایک فن مستقل ہوگیا ہے اسی کانام عام اصطلاح میں تصوف رکھ دیا گیا اور اسی کانام فن تربیت ہے جوبڑا نازک ہے کیونکہ بدوں مجاہدہ اور ریاضت کے کہ خاص تدابیر کانام ہے ان رذائل کا علاج مشکل ہے اوریہ سب شیخ کی رائے پرہے بدوں شیخ مبصرومجرب کے اصلاح اور تربیت مشکل ہے یہ ہے حقیقت اس فن کی ۔ اب بتلایئے تجربہ کار پر کیا اعتراض ہوسکتاہے ایک شخص کہتے تھے کہ میرے اندرکبرہے میں نے کہا کہ آثار بیان کرو جیسے طبیب آثار سن کر مرض کی حقیقت کو سمجھتا ہے آثار بیان کرنے پر معلوم ہوا کہ کبرنہیں خجلت ہے میں نے کہا کہ خجلت ہے کبرنہیں کبراور چیزہے خجلتااور چیز ہے یہ ایک مثال ہے تجربہ اورعدم تجربہ کے فرق کی بس یہ تھی حقیقت اس فن کی جس میں لوگوں نے اینچ پینچ لگاکر ہوابنا رکھا ہے اوربعض ناواقفوں نے ایسی چیزوں کوجن کا درجہ محض تدابیرکا ہے اصل اور مقصود بنا رکھا ہے اور بذریعہ مقصود کو مقصود سمجھتے ہیں جو غلطی عظیم ہے ۔ خانقاہ کے قواعد وضوبط کا سبب: (ملفوظ 75) ایک صاحب کی غلطی پرمتنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے یہاں جو قواعد اورضوابط ہیں یہ گھڑے ہوئے نہیں ہیں جوں جوں تجربات ہوتے گئے ان میں اضافہ ہوتا رہا ۔ مثلا ایک یہی معمول ہے کہ یہاں نئے آنے والوں کیلئے یہ قید ہے کہ وہ مجلس میں خاموش بیٹھے رہیں اور زمانہ قیام میں مکاتبت مخاطبت قطعا نہ کریں اس کی بھی ضرورت پیش آئی یہ سب اپنے اور دوسروں کی راحت رسانی کی تدابیر ہیں اس پر بھی تم جیسے عقلمند ستانے سے باز نہیں آتے یہ تواتنے قواعد اور ضوابط پرحالت ہے اوربدوں اس کے توزندگی ہی دشوار کردیتے اگران سب قواعد اورضوابط کی ضرورتیں کروں اچھاخاصا ایک رسالہ تیار ہوجائے ۔ دین میں تنگی نہ ہونے کی مثال : ( ملفوظ 76 ) ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا کہ دین میں تنگی نہیں اگرتنگی ہوتی تو حضور یہ نہ فرماتے الدین