ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
مہینہ کے ختم پر منٹ تک جمع کر کے ان کی تنخواہ سے وضع کر لیا جاتا تھا اور میں خود بھی بلا واسطہ یا بواسطہ اہل علم پر حکومت کرنا پسند نہیں کرتا ۔ اہل بدعت کا جواب دینے کے لئے مجبورا اہل حق کو بولنا پڑا ( ملفوظ 423 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ فرق باطلہ اور اہل بدعت کی وجہ سے اہل حق کو کلام کرنا پڑا ورنہ اہل حق فی نفسہ اس قسم کے کلام کرنے کو پسند نہیں کرتے اس لئے کہ سلف سے منقول نہیں اور میں بھی پسند نہیں کرتا مجھ کو ہمیشہ سے اس قسم کے قیل و قال سے نفرت ہے مگر بیچارے اہل حق کو اہل باطل کی گڑبڑ کی وجہ سے بولنا پڑا اور یہ ان کا بولنا ضرورت کی وجہ سے تھا یعنی اول اہل بدعت نے دین میں شبہات نکالے اہل حق نے ان کو دلیل کے ساتھ دفع کیا جس سے صورت مناظرہ کی پیدا ہو گئی اور علم کلام مدون ہو گیا پس ایسے مسائل میں اہل حق مدعی نہیں بلکہ اہل بدعت مدعی ہیں اور اہل حق ان کے مقابلہ میں مانع ہیں پھر اضطرار کے ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ اس کلام و مناظرہ کے کچھ حدود اور شرائط بھی تھے مگر بعض متاخرین نے اس کو بڑھا لیا اس حد تک رکھا نہیں اور تامل و تجربہ سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے غیر ضروری قیل و قل کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلتا ۔ بے کار وقت کھوتے ہیں اسی قیل و قال کو دین سمجھنے لگے اور اپنی فکر چھوڑ دی حالانکہ دوسروں کے درپے تو جب ہو جب اپنی حالت پر پہلے اطمینان ہو چکا ہو پہلے اپنی خبر لینی چاہئے حیدرآباد والے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا کہیں دوسروں کی جوتیوں کی حفاظت کی بدولت اپنی گٹھڑی نہ اٹھوا دینا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کی اصلاح اس قدر ضروری نہیں جس قدر اپنے دین کی حفاظت ضروری ہے ۔ پھر فرمایا کہ آج کل کے مناظروں میں اصول بے اصول کچھ نہیں دیکھا جاتا بس ہانکے چلے جاتے ہیں خواہ سیدھی ہو یا الٹی دیکھنے والے سمجھتے ہیں بڑا بولنے والا ہے اور خود مناظرین کو بھی یہ ہی پچ ہوتی ہے کہ حق منہ سے نکلے یا ناحق کسی طرح ہیٹی نہ ہو ۔ نیز اس شغل میں ایک خرابی یہ ہے کہ بعضے مضامین جن کو رد کیا جاتا ہے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اظہار ہی گو رد ہی کے لئے مضر ہے ان کا اخفاء اور امانت ہی مناسب ہوتا ہے فرمایا کہ اظہار کر کے رد کرنے پر ایک حکایت یاد آئی ایک ولائتی ہندوستان آیا تھا اتفاق سے چور یا ڈاکوؤں سے مقابلہ ہوا اس میں زخمی