ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
فرمایا کہ اب حد ہوگئی میں نے یہان تک کہہ دیا ابھی کہ آپ فرض کرلیجئے کہ میں بہرا ہوں باوجود اس کہ دینے کے اور اتنی لمبی چوڑی تقریرکے نہ آواز بلند ہے اور نہ مضمون صاف اور پورا ہے پھر فرمایا کہ اب میرے قلب میں سوزش پیدا پیدا ہوگئی بوجہ تحمل کے آپ مسجد میں تشریف رکھیں مجھ کو تکلیف ہونے لگی وہ صاحب مسجد میں تشریف لے گئے حضرت والا نے اہل مجلس کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ اب بتلائیے کہاں تک تغیرنہ ہو آخربشرہوں جس چیز کو بار بار تصریحا کہہ چکا پھرلوٹ کر وہی حرکت البتہ اگرمیں بلکل بے حس ہوجاؤں تب ان کا کام بنے ایسے ایسے بدفہم لوگ آتے ہیں جن سے تکلیف ہوتی ے پھر فرمایا کہ میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ میں بہت ہی صبر اور تحمل سے کام لیتا ہوں آپ حضرات نے اسی واقعہ میں دیکھا کہ میں تحمل کرتا ہوں یا سختی کرتا ہوں یہ ہیں وہ باتیں جن پرباہر جاکر مجھ بدنام کیا جاتا ہے اب بدنامی کودیکھوں یا آنیوالے کی مصحلت اور اپنی تکلیف کو دیکھوں اور مجھ کو تو اس بدنامی سے خوشی ہوتی ہے کہ بدفہموں کی بدفہمیوں سے تونجات ملے گی اس لئے ایسی بدنامی میں بھی لذت ہے خوب کہا گیا ہے گرچہ بدنامی ست نزد عاقلاں ٭ مانمی خواہیم ننگ ونام را انتہی جزوادب الخطاب ۔ شیخ سے اپنے حالات کی اطلاع کرتے رہنا ضروری ہے (ملفوظ 286) ایک صاحب کے سوال کےجواب میں فرمایا کہ شیخ سے اپنے حالات کی اطلاع کرتے رہنا بہت ضروری ہے بدوں اس کے اصلاح نہیں ہوسکتی اس کی مثالہ ہے جیسے حکیم صاحب ایک نسخہ لکھ دیں اور یہ ساری عمر پیتا رہے اور حالات کی اطلاع نہ دے کیا علاج ہوسکتا ہے ۔ ایک خط میں ایک مضمون لکھنے کی ہدایت (ملفوظ 287) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کے یہاں یہ بھی ایک طریق اور اصول ہے کہ ایک ایک بات الگ الگ طےہوتی ہے یہ بڑا ہی اچھا اصول ہے فرمایا کہ جی ہاں اگر چار باتوں کی ایک دم تحقیق شروع ہوجائے تو خلط مبحث ہوجائے پتہ ہی چل کرنہ دے کہ کیا ہورہا ہے بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہہ ایک ہی خط میں دو مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں میں ان میں