ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ہے فرماتے جنت میں ماشاءاللہ وہ بی بی بھی ایسی تھیں کہ جنت کے وعدہ پران کو سکون ہوجاتا تھا اب تویہ حالت ہے کہ ایمان رہے یا جائے آمدنی ہوروپیہ ہو، عیش وعشرت میں کوئی فرق نہ آجائے چاہے اللہ اور رسول کے تعلقات میں کیسا ہی فرق آجائے ۔ دورحاضرکے تقویٰ کی مثال : (ملفوظ 137) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل کا تقدس اور تقوٰٰی طہارت اورزہد بی بی تمیزہ کاسا وضو ہے جونہ جنابت سے ٹوٹتا تھا اورنہ دل بول براز سے مہینوں ایک ہی وضو سے نماز پڑھی اور درمیان میں سب کچھ ہوتا رہا ایسا ہی آج کل کا تقویٰ ہے کہ ایک بار اس رجسٹری ہوجائے پھرکوئی چیز اس میں مخل نہیں ہوتی پھر لطف یہ ہے کہ اگراس بے احتیاطی کا اثر دوسروں تک پہنچے اور کوئی خیرخواہ ان سے کہے کہ حضرت یہ لوگ آپ کے معتقد ہیں آپ کے فعل سے استدلال کرتے ہیں گمراہ ہوتے ہیں آپ کواحتیاط مناسب ہے تواس پر جواب ملتا ہے کہ آپ ذاتیات پرحملہ کرتے ہیں حالانکہ وہ ذاتیات نہیں ہوتے اور اگر بالفرض ذاتیات بھی ہوں تب بھی حیرت ہے کہ تم تو آیات بینات اور دینیات پر حملہ کرو اور کوئی تمہاری ذاتیات کے قلب میں ہوتی تھی اب یہی بات نہیں رہی لوگوں میں اسی کی کمی ہوگئی ۔ غفلت کی حد : (ملفوظ 138 ) ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا کہ تعجب ہے کہ اہل باطل کو تو اجازت ہے کہ وہ اہل حق سے تعصب رکھیں اوراہل حق کو اس کی بھی اجازت نہیں کہ وہ مدافعت بھی کرسکیں کتنے بڑے ظلم اور اندھیر کی بات ہے اور یہ اہل باطل اپنے مسلک کی اشاعت کے لئے اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ اگراس میں ذرا کمی ہوتوان کا زندہ رہنا دشوار ہے اس لیے کہ حق تعالیٰ کی نصرت تو ان کے ساتھ ہے نہیں محض قوت ظاہری اور سامان ظاہری پران کی مذہبی زندگی کا مدار ہے وہ بھی نہ ہوتو بس خاتمہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل باطل ہمیشہ متفق ومشغول تدابیر رہتے ہیں اور اہل حق ہمیشہ اس خیال میں رہتے ہیں کہ اللہ کا دین ہے وہ خود حفاظت کریں گے اس لئے وہ زیادہ اہتمام نہیں کرتے اور فی نفسہ تویہ خیال نہایت صحیح اور مبارک خیال ہے مگر اس میں ایک بہت بڑی غلطی مضمر