ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
نہیں آتے اس لئے ان کے اقوال کو بظاہر دلائل کے معارض سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت ہوتی ہے مثلا اس وقت میں نے ہی حکماء اور صوفیہ کے قول کو بیان کیا بتلایئے ان میں کیاتعارض ہے ۔ وعظ الظاہر کے بارے میں (ملفوظ 307) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ تو جاہل صوفیوں کے اقوال ہیں ان کو کیا خیر کہ حقیقت شریعت کیا ہیں اصطلاح میں احکام ظاہرہ کو شریعت کہتے ہیں اور باطن کو طریقت اور اصل ایک ہی چیز ہے اس کے یہ دو درجے ہیں اور بدون دونوں جمع ہوئے اور عمل کئے انسان کی نجات نہیں باقی حقیقت وہ اسی مجموعہ پرمرتب ہے اس لئے اگراس کے موافق ہے تو مقبول ورنہ وہ حقیقت ہی نہیں جس کو شریعت رد کرے یا کہ بدینی ہے ایسے ہی بد دینوں اورجاہلوں نے اس فن کو بدنام کیا ہے اس کی مثال بیان کرتا ہوں مثلا یہ ایک حقیت ہے کہ ہرشے کے مالک حقیقی اللہ تعالٰٰی ہی ہیں مگر نظام عالم قائم رکھنے کیلئے اشیاء پر ہمارا نام رکھ دیا ہے ورنہ حقیقت میں بندوں کے اموال اور نفس اور عزت اور آبرو سب کے مالک وہی ہیں غرض اس حقیقت کی حکمت کے لئے ان کی نسبت ہماری طرف فرمادی تاکہ گڑبڑ نہ ہو اور نظام عالم قائم رہے اور یہ نسبت شریعت ہے پس اگرشریعت نہ ہو تو تمام عالم میں فساد برپا ہوجائے ہرشے پرتجادل ( آپس میں جھگڑا ) وتقاتل ( آپس میں لڑائی ) برپارہے شریعت مقدسہ ہی نے بڑے بڑے مفاسد کو روک رکھا ہے اسی مضمون کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک خاص عنوان سے بیان کیا ہے فرماتے ہیں سرپہناں است اندر زیروبم ٭ فاش اگر گویم جہاں برہم زنم حضرت حاجی صاحب نے یہی تفسیر فرمائی ہے کہ سرپہناں توحید کشفی ہے اورفاش گفتن اظہار ہے جہاں برہم زودن مفاسد کا ترتب ہے اور زنم میں اسناد الی السبب ہے پس اس نسبت کے حقوق اور اس کے احکام شریعت ہی نے بیان فرمائے ہیں اور جو درجہ اس نسبت کا ہے وہ بھی اک حقیقت ہے جوحقیقت متعارفہ کی ساتھ جمع ہوسکتی ہے پس دونوں حقیقتوں میں کچھ تعارض نہیں پس صحیح حقیقت ان دونوں کا مجموعہ ہے نہ وہ جس کو جاہل صوفی بیان کرتے ہیں کہ وہ تو واقع میں