ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ویسے ہی بدوں سوچے سمجھے جو جی میں آیا ہانک دینا یہ تو رنج کا سبب ہو ہی گا ۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ تکلیف پہنچانے کا قصد تو نہیں ہوتا مگر اس کا بھی قصد نہیں ہوتا کہ تکلیف نہ پہنچے ساری خرابی بے فکری کی ہے ۔ مقصود معین نہ ہونے کی مثال ( ملفوظ 426 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان کیفیات کے متعلق جو میں نے بیان کیا تھا کہ اگر مقصود کی معین ہوں تو محمود ہیں مگر مقصود نہیں ۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک بہلی ہے اس کو دو بیل لئے جا رہے ہیں مگر آہستہ آہستہ ایک اور تیسرا قوی بیل جوڑ دیا تو اب بہلی زیادہ زور سے چلنے لگی لیکن یہ تیسرا بیل نہ ہوتا تب بھی مسافت تو طے ہو رہی تھی اس تیسرے بیل کے نہ ہونے پر یاس نہ ہونا چاہئے کہ ہائے اب کیسے منزل مقصود پر پہنچیں گے انشاء اللہ پہنچ جاؤ گے گو وقت کچھ زیادہ صرف ہو ۔ اس سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ ان کیفیات کا درجہ اس سے زیادہ نہیں اب اگر کوئی بیلوں ہی کو مقصود سمجھے یا اپنی شان شوکت تین ہی بیلوں پر سمجھتا ہو تو اس کا کسی کے پاس کیا علاج ہے ۔ دوسروں کے معاملات میں بلا ضرورت دخل دینا مرض عام ہے ( ملفوظ 427 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ دوسروں کی فضول فکر اور دوسروں کے معاملات میں بلا ضرورت دخل دینا آج کل یہ مرض عام ہو گیا ہے اور یہ اس راہ میں سم قاتل ہے کہ اپنے اختیارات کا تو اہتمام نہ کرے اور دوسروں کے اختیاریات میں مشغول ہو جاوے جو اس کے اعتبار سے غیر اختیاری ہے اسی کے متعلق فرماتے ہیں کار خود کن کار بے گانہ مکن محمدی کہنا جائز ہے تو حنفی اور شافعی بھی جائز : ( ملفوظ 428 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ ایک غیر مقلد قاضی صاحب یہاں پر آئے تھے یہاں کی تعلیم پر ذکر بالجہر کیا کرتے تھے کسی نے ان سے کہا کہ یہ تو بدعت ہے کہنے لگے کہ میاں اس میں مزا آتا ہے اس میں بدعت کی کیا بات ہے گویا ان کے یہاں مزہ پر مدار تھا جس میں مزہ ہو وہ بدعت نہیں ہماری جماعت کے بے حد معتقد تھے مگر تھے غیر مقلد ۔