ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
حضرت نے فرمایا کہ ہاں بھائی تم شاعر ہو تم اسی طرح کرلیا کرو ہم بزرگوں کے کلام میں تصرف کرنا خلاف ادب سمجھتے ہیں ان کو حضرت نے بے ادب بنادیا مگر نہایت لطیف عنوان سے جیسے قرآن میں حق تعالی فرماتے ہیں ومالی لااعبد الذی فطرنی والیہ ترجعون (اور میرے پاس کونسا عذر ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا ) ان حضرات کی ہربات میں لطافت ہوتی ہے اگر معمولی سے معمولی بھی فرماتے ہیں اس میں بھی نور ہوتا ہے اثر ہوتا ہے ایسے ہی ایک شخص حضرت مولانا گنگوہی کی خدمت میں آیا اس نے ایک ضرورت کیلئے تعویز مانگا غالبا نکاح کرنا چاہتا تھا آپ نے انکا ر کردیا اس نے اصرار کیا آپ نے لکھ کردے دیا اے اللہ یہ مانتا نہیں میں جانتا نہیں آپ جانیں اور آپ کا بندہ بہت جلد وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا اور جیسے ان کی معمولی باتوں میں نور اور اثر ہوتا ہے ایسے ہی معمولی باتوں میں علوم بھی ہوتے ہیں ۔ وساوس کی طرف التفات کرنے کی مثال : (ملفوظ2) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وساوس کی طرف التفات اور توجہ کرنا ہی مضر ہے اس کی مثال بجلی کے تار کی سی ہے بجلی کے تار کو ہاتھ لگانا چاہئے خواہ جزبا (پکڑنے کے لئے ) ہو یا دفعا ہو (الگ کرنے کے لئے ) ہروہ صورت میں لپٹے ہی گاہاں اس کی ایک صورت ہے وہ یہ کہ درمیان میں کوئی ایسی چیز حائل ہوجائے کہ بجلی کو دور کردے جسے لکڑی کے حائل ہونے سے اثر نہیں کرتی یہ ایک تدبیر نافع ہے اسی طرح یہاں بھی ایسی چیز کی ضرورت ہے اس کی صور ت یہ ہے کہ وساوس کے دفع کی طرف تو توجہ نہ ہو بلکہ یہ کرے کہ مثلا قرآت کے وقت اس کے الفاظ کی طرف متوجہ رہے اس طرح سے کہ الحمد للہ رب العلمین کے بعد الرحمن الرحیم ہے اس کے بعد مالک یوم الدین ہے چند روز تو اس صورت میں تعجب ہوگا مگر پھر سہولت سے عادت ہوجانے پر تعجب بھی نہ ہوگا مگر یہ سب باتیں کرنے سے تعلق رکھتی ہیں محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہاتھ لگتا ہے یہ زبانی جمع خرچ ایسا ہے جیسے ایک مہاجن مفلس تھا مزاحا فرمایا کہ میں ان کو مہاجن کہا کرتا ہوں بیٹھا ہوا کارخانہ کا حساب کررہا تھا ایک مہزب سائل آیا خاموش کھڑا رہا اس خیال سے کہ اس وقت سیٹھ جی حساب میں مشغول ہیں فارغ ہونے پر سوال کرونگا دیرتک کھڑا ہوا حساب کے الفاظ سنتارہا دوا اور دو چار اور چھ دس دس کا صفر