ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
والوں کو یہاں کے معمولات و قواعد کے متعلق مشورہ دیتے ہیں مگر ان میں بعض ایسے بدفہم ہوتے ہیں کہ ان پرمشورہ سے برا اثرہوتا ہے اب اس میں انتخاب بڑا مشکل ہے کہ کون اہل ہے مشورہ کا اور کون نہیں اس لئے اصلح یہی ہے کہ خود کسی کو مشورہ نہ دیا جاوے البتہ اگرکوئی خود پوچھے اس کو اطلاع کردی جاوے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا تھا کہ مشورہ دے دینے میں مسلمان کی اعانت ہے فرمایا کہ اس اعانت کی بھی ایک حد ہے وہ یہ کہ اگر کوئی خود پوچھے اس کو اطلاع کردی جاوے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا تھا کہ مشورہ دے دینے میں مسلمان کی اعانت ہے فرمایا کہ اس اعانت کی بھی ایک حد ہے وہ اگر نااہل کو مشورہ دیا تو وہ اعانت کہاں وہ تو مضرت کا سبب ہوگا ۔ اور بعض احوال میں مشہور دینے والے کے لئے بھی مضرت سمجھتا ہوں یعنی اگر اس کو یہ گمان ہوجائے کہ مجھ کو مشورہ دینے کے لئے واسطہ بنانے کے لئے منتخب کیا گیا ہے تو اس کا دماغ خراب ہوگا کہ اپنے کو مقرب سمجھنے لگے گا اس لئے اسلم یہی ہے کہ سب کہ اپنے اپنے خیال پر چھوڑ دینا چاہئے کوئی کسی کے معاملہ میں دخل ہی نہ دے باقی سفارش جو مشورہ سے بھی زیادہ بحمداللہ میرے یہاں ہے ہی نہیں اس کا بلکل ہی سد باب ہے اور سمھنے کی بات ہے کہ سفارش کی تو وہاں ضرورت ہے جہاں مواخذہ سے انتقام مقصود ہو یہاں انتقام تھوڑا ہی مقصود ہے محض اصلاح مقصود ہے وہاں سفارش کے کیا معانی کیا یہ مقصود ہے کہ اصلاح نہ کرو اصلاح میں سفارش نہ ہونے کی دلیل ایک حدیث ہے وہ یہ ایک عورت نے چوری کی تھی اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حد جاری کرنے کا حکم فرمایا اس کے متعلقین نے حضرت اسامہ سے سفارش کرنے کے لئے کہا حضرت اسامہ کو ایک خصوصیت تھی انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کردیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ناخوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم حدود میں سفارش کرتے ہیں اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتیں تو ان کا بھی ہاتھ کٹوا دیتا ۔ اس عورت کا نام بھی فاطمہ تھا ، اس لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا چونکہ حدود سے مقصود اصلاح ہوتی ہے قیاس سے ہر اصلاح کا حکم اس سے ثابت ہوگیا تو اصلاح میں کسی کی کیا رعایت ۔ واسطہ بننے پر کوئی راضی نہ ہونا (ملفوظ 474) خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ جن صاحب کو ان غلطی پر یہ فرمایا تھا کہ