ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
عادت ہوگئی ہے اورعادت بھی نہیں بلکہ رسم کا درجہ ہوگیا ہے کہ اپنی چاہتی چیزدیتے ہیں حالانکہ عقل کی بات یہ ہے کہ جس کوچیز دیجائے اس کی جی چاہتی ہونی چاہئے اب بعضی چیزیں ملک میں رہنے سے بھی قلب پربارہوتا ہے جب کوئی چیز مصرف سے زائد آجاتی ہے جب تک وہ ایک طرف نہ ہوجائے اس وقت تک قلب کویکسوئی نہیں ہوتی اوربعض لوگوں کا مذاق یہ ہے کہ ان کی ملک میں جس قدر چیزیں زائد ہوں اس کے قلب کو اطمینان اور سکون زائد ہوتاہے مجھ کو وحشت ہوتی ہے غرض سب سے اسلم اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ جوکچھ دین پہلے مجھ سے پوچھ لیں اس میں بڑی سہولت ہے الحمداللہ میرے یہاں رسم پرستی نہیں حقیقت پرنظرہے جس کا خلاصہ راحت رسانی ہے مگر آج کل اس کا قطعا خیال نہیں بریلی سے ایک صاحب نے پوچھا تھا کہ میں تین روپیہ کی مٹھائی لانا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو میں نے لکھ دیا کہ اس کوتو کون کھاوے گا ایک چاقو قلم تراش کی ضرورت ہے میرے پاس ہے نہیں وہ لیتے آؤ لیکن اگر تین روپیہ سے زائد ہوگا زائد قیمت میں دوں گا وہ تین روپیہ چار آنہ کا چاقولائے میں نے لے لیا اور چارآنہ نہت خفیف رقم تھی اس لئے میں نے مع اس زیادت کے لے لیا ۔ اوسط درجہ کے کپڑے پہننے کے معمول کی حکمت : ( ملفوظ 156) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک دوست حکیم صاحب نے لکھا تھا کہ میں نے تمہارے لئے چالیس روپیہ گز کا کپڑا منگایا ہے میں نے ایک لطیف عذر کے ساتھ نامنظور کردیا وہ عذر یہ لکھا کہ میرا جو فرض منصبی ہے یعنی تعلیم دین اس کا تعلق زیادہ تر مساکین سے ہے سو مجھ کو ایسی وضع سے رہنا چاہئے جس سے مساکین مرعوب نہ ہوں تاکہ بے تکلف استفادہ کرسکیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ معمولی حالت میں رہوں اور آپ حکیم ہیں جن کے لئے ظاہری شان وشوکت مناسب ہے کیونکہ ان کا تعلق اکثر امراء سے ہے اس لئے چالیس روپیہ گزکا کپڑا بہننا آپ کے لئے مناسب ہے اس کے بعد فرمایا کہ خواہ مخواہ لوگوں کو بیٹھے بٹھائے ایسی تکلف کی باتیں سوجھتی ہیں ہمارے بزرگوں کا طرزیہ رہا ہے کہ صاف تورہے کہ صاف تورہے مگر زیب وزینت اور تکلف نہ ہو بس میلا نہ ہو پسینے کی بونہ ہو اور یہ اعتدال بدوں صحبت کے میسر ہونا مشکل ہے باقی امتیاز کا قصد اگر