ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
شمار میں ہے بس معلوم ہوگیا کہ ایسے خیالات ہی میں نہ بڑے اپنے کام میں لگنا چاہے اور یہ لگنا ساری عمر کے لیے ہے بس اسی میں اپنی عمر کو ختم کردے اسی کو مولانا فرماتے ہیں اندریں رہ می تراش ومی خراش ٭ تادم آخردمے فارغ مباش ( میں نے اپنے کسی نفع کے لیے مخلوق کو پیدا نہیں کیا بلکہ بندوں پربخشش اور کرم کرنے کیلئے پیدا کیا ہے ۔ 12) وہ تو دربار ہی اورہے وہاں تو ان نقائض ہی پر سب کچھ عطا ہوگا وہ کا ملین ہی کے خریدار تھوڑا ہی ہیں وہ تو ناقصین کو بھی قبول فرمانے والے ہیں اس لئے کہ جو کچھ عطاء ہوگا وہ کا ملین ہی کے خریدار تھوڑا ہی ہیں وہ ناقصین کو بھی قبول فرمانے والے ہیں اس لیے جو کچھ عطاء ہوگا اس کے مقابلہ میں ان ہمارے اعمال کی کچھ بھی حقیقت نہ ہوگی گووہ قاعدہ سے کامل ہی ہوں جو کچھ بھی ہوگا فضل اور رحمت سے ہوگا وہاں ضابطہ کے کھوٹے کھرے کو نہ دیکھا جائے گا بلکہ طلب اور خلوص کو دیکھیں گے مولانا فرماتے ہیں خود کہ یایدایں چنیں بازاررا ٭ کہ بیک گل می خری گلزار را ( ایسا بازار کس کو ملتا ہے جہاں ایک پھول کے بدلہ میں پورا باغ ملتا ہو ۔ 12) اس لیے کہ مایوس نہ ہوجیسے ٹوٹے پھوٹے کی توفیق ہوکام میں لگے رہو انشاءاللہ تعالیٰ سب کچھ عطا ہورہے گا ۔ صوفیاء کے نزدیک انسان عالم کبیر ہے (ملفوظ 306) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حکماء انسان کو عالم صغیر کہتے ہیں اور صوفیہ عالم کہتے ہیں اور صوفیہ کبیرکہتے ہیں اور اگر کسی کو شبہ ہو کہ حق تعالٰی فرماتے ہیں لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس ، جس میں تصریح ہے انسان کے صغیر ہونے کی اور اس صورت میں حکماء اورصوفیہ کے کلام میں تعارض معلوم ہوتا ہے اور حکماء کی تائید کلام پاک سے ہوتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ تعارض کچھ نہیں اس لئیے کہ انسان میں دو درجہ ہیں ایک کے اعتبار سے حکماء کا قول صحیح ہے یعنی مادہ کے اعتبار سے تو انسان عالم صغیر ہے جیسا لفظ خلق اس پردال ہے اور روح کے اعتبار سے عالم کبیر ہے اور اصل بات یہ ہے کہ صوفیہ کے اکثر دقائق لوگوں کی سمجھ میں