ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
میاں جی ایک متوسط الحال شخص کے یہاں بچے پڑھانے پر ملازم تھے وہ شخص کہیں باہر جاکر پانچ سو روپے ماہوار کے ملازم ہوگئے انہوں نے گھراطلاع خط بھیجا میاں جی کے سوا اور کوئی خط پڑھنے والا نہ تھا گھر والوں نے میاں جی کوخط پڑھنے کو دیا خط پڑھ کر میاں جی نےرونا شروع کردیا گھروالوں کو پریشانی ہوئی اور وجہ پوچھی کہا کہ وجہ تو بعد میں بتلاوں گا پہلے تم بھی رؤو ۔ وہ بھی رونے لگے غل مچا ۔ محلہ والے سن کر آگئے رونے کی وجہ پوچھی میاں نے کہا کہ تم بھی رؤو ۔ محلہ والے بھی رونے لگے پھر لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا میاں جی نے کہا خط میں لکھا ہے کہ میاں پانچ سو روپیہ کے ملازم ہوگئے لوگوں نے کہا اس میں رونے کی کیا بات ہے یہ تو خوش ہونے کی بات ہے کہنے لگے نہیں رونے ہی کی بات ہے چنانچہ سنو ! میں تویوں رویا کہ اب وہ بچوں کو انگریزی پڑھائیں گے بجائے ان کے اب وہ کسی میم صاحبہ کو لائیں گے میرا روزگار گیا اور گھروالوں کے رونے کی یہ بات ہے کہ بجائے ان کے اب وہ کسی میم صاحبہ کو لائیں گے ان کے ورٹی کپڑے میں کھنڈت پڑے گی اور اہل محلہ کے رونے کی یہ بات ہےکہ میاں کو موٹرکیلئے اور گھوڑوں کے لئے مکان اور اصطبل کی ضرورت ہوگی تو اہل محلہ ہی سے مکانا ت خالی کرایہ جائیں گے اس لئے سب کو رونا چاہئے میاں جی تھے بڑے دوراندیش کیا جوڑ لگایا ہے تو بعض رونا بھی بے جوڑ ہوتا ہے ۔ بندہ خدا خطبہ کیوں ترک کیا سنت کو تو بدعت نہیں کہہ سکتے خدا معلوم کیا ذہن میں آیا ہوگا جس کی بناء پریہ کیا گیا ویسے تو عقائد میں نہایت ہی پختہ ہیں ہاں ! ایک کمی ہے جس کو میں اکثر کہاکرتاہوں کہ نجدی ہیں تھوڑے سے وجدی بھی ہوتے تب بات ٹھیک ہوتی خشک زیادہ ہیں کھراپن ہے ۔ حقیقی آزادی خاصا ن حق کو حاصل ہے : (ملفوظ 51 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کی جی ہاں لوگ آزادی اور حریت کی حقیقت سے ناواقف ہیں اس لیے یہ مرض ایسا عام ہوگیا کہ سلطنت اور حکومت سے تو آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں خدا سے بھی آزا د ہوگئے خدا کا بھی خوف قلوب سے جاتا رہا یہ سب الحاد ہے بدفہمی کی بھی کوئی حد نہیں رہی حریت کس آزادی کو کہتے ہیں آیا حق سے آزاد ہونے کو یا غیر حق سے اس لیے کہ ایمان والے کیلئے تو حق کی غلامی ہی باعث فخر اور باعث فلاح اور بہودی ہے اور یہ آزادی بھی اللہ والوں ہی کو میسر ہے اور جومدعی ہیں آزادی ہزاروں طوق اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں حقیقی آزادی خاصان حق ہی کو حاصل ہے ان کی یہ حالت ہے کہ وہ دنیا سے öö öööö 47 öööö آزادی اور حق کے پابند اور غلام ہیں اس غلامی پر لاکھوں کروڑں آزادیاں قربان جن کو اس غلامی کا رازمنکشف ہوگیا وہ تو بزبان حال یہ کہتے ہیں اسیرش نخواہد رہائی زبند شکاری نجوید خلاص از کمند ( اس کا قیدی قید سے رہائی نہیں چاہتا اس کا شکاراس کے جال سے نکلنا نہیں چاہتا12) میں اس پر ایک حکایت بیان کر تا ہوں وہ یہ کہ ایک عاشق جواپنے محبوب کی تلاش میں برسوں سرگرداں اور پریشان پھرتا تھا اتفاق سے ایک روزہ یہ چلا جارہا تھا کہ اس محبوب نے خاموشی سے آکر پیچھے سے آغو ش میں لے کر اس زور سے دبایا کہ اس کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں سے جاملیں آنکھیں نکل آئیں دم گھٹنے لگا اس حالت میں محبوب دریافت کرتا ہے کہ اگرمیرے دبانے سے تم کو تکلیف ہوتی ہے تو میں تم کو چھوڑکر اور کسی کو جاکراپنی آغوش میں دبا لوں اس وقت وہ اگر عاشق صادق ہے تو یہ کہے گا نشودنصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سرد وستاں سلامت کہ تو خنجرآزمائی ( تیری تلوار سے ہلاک ہونا خدا کرے دشمن کے نصیب میں نہ ہو، تیری خنجر آزمائی کے لئے دوستوں کا سرحاضرہے ۔ 12) حقیقت مجاہدہ : ( ملفوظ 52) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حقیقت مجاہدہ کی ہے نھی النفس عن الھوی ( نفس کو اس کی خوہشات (مذمومہ ) سے روکنا ۔ 12) اوراس کے حاصل ہونے کی تدبیر یہ ہے کہ خاف مقام ربہ ( اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے ) اگریہ کہا جائے کہ شریعت میں مجاہدہ سے مراد مجاہدہ مع الکفار ہے تو اس حدیث کے کیا معنی ہونگے المجاھد من جاھد نفسہ ( مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے ) بلکہ مجاہدہ ظاہری میں مشغول ہونا آسان اور سہل ہے اور مجاہدہ باطنی میں مشغول ہونا سخت کام ہے اور اس میں تسامل کرنا ایسا ہے کہ باہر کے دشمن کو تو مار دیا مگر اندر کے دشمن کی طرف التفات ہی نہیں اسی کو فرماتے ہیں دربہ بست ودشمن اندر خانہ بود حیلہ فرعون زیں افسانہ بود