ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
تاکہ وہ اس کے ذریعہ سے واپس آسکے اگرنہ چھوڑا جائے وہ لوٹ نہیں سکتی پھر از سرنو اہتمام کرنا پڑتا ہے اس مثال کی خوبی پرایک دوسری مثال کا قصہ بیان فرمایا گو وہ دوسرے باب کا مضمون ہے وہ قصہ مولوی محمد یسین صاحب والد مولوی محمد شفیع صاحب سے نقل فرمایا وہ مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس زیادہ بیٹھتے تھے اور دل کھلا ہوا تھا اس لئے جوجی میں آتا کہہ بھی دیتے ایک روز مولانا کے ایک مبسوط کلام کے بعد ان سے کہتے ہیں کہ کثرت کلام کو بزرگوں نے اچھا نہیں سمجھا اور آپ کثرت سے کلام کرتے ہیں یہ کیا بات ہے مولانا نے فرمایا کہ تقلیل کلام خود مقصود بالزات نہیں مقصود تویہ ہے کہ فضول کلام نہ ہومگر مبتدی ابتداء تعدیل پرقادر نہیں ہوتا اس لئے معالجہ کے درجہ میں بہت زیادہ تقلیل تجویز کرتے ہیں تاکہ اعااعتدال پرآجائے اس کی ایسی مثال ہے کہ کاغذ لپٹا ہوا رکھا ہوتا ہے جب اس کو کھولتے ہیں تو وہ پھر اسی طرح لپٹ جاتا ہے اس لئے اس کو اس طرح سیدھا کرتے ہیں کہ اس کو دوسری مخالف طرف اسی طرح لپیٹنے ہیں جس سے وہ سیدھا ہوجاتا ہے اسی درجہ میں ضرورت ہے تقلیل کلام کی ورنہ وہ خود مقصود بالذات نہیں مولانا کے علوم عجیب ہوتے تھے بڑی سے بڑی بات کو اس طرح پر بیان فرمادیتے تھے کہ ہرشخص جاتا تھا ۔ راہ طریقیت میں شیخ مبصر کی ضرورت : (ملفوظ 340) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے لکھا تھا کہ مجھ کو جیسی محبت آپ سے پہلے تھی اب نہیں رہی میں نے لکھا کہ پھردینی ضرر کیا ہوا بھی مکھا تھا کہ نماز میں خشوع و خضوع نہیں رہا میں نے لکھا کہ اختیاری درجہ نہیں رہا یا غیراختیاری نہیں ریا یہ بھی لکھا تھا کہ پہلی باتیں یاد کر کے دل ڈھونڈتا ہے میں نے لکھا کہ بچپن کو یاد کرکے بھی دل ڈھونڈتا ہے اس پرفرمایا کہ ان کو تو میری محبت نہ رہنے پرحسرت ہے اگرحق سبحانہ وتعالٰٰی کے ساتھ بھی محبت طبعی نہ ہو تو اس میں بھی کوئی ضرر نہیں عقیلہ اختیاریہ ماموربہ ہے وہ ہونا چاہئے وہی کافی ہے اس ہی لئے شیخ مبصری کی اس راہ میں ضرورت ہے ورنہ اس راہ میں ہزارہا حضرات ہیں ۔ مخالفین کے قلوب میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت (ملفوظ 341) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جوحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں وہ تو