ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
میں مطلق خیال ہی نہیں بدوں تحقیق جوجی چاہا اور جس کی نسبت چاہا کہہ دیا یہ قلب میں دین نہ ہونے کی دلیل ہے الحمدللہ اپنے حضرات کی برکت کی وجہ سے ہم لوگوں کو حدود کا اس قدر خیال رہتا ہے کہ جب دیوبند میں بڑا جلسہ ہواتھا اس میں مجھ سے حضرت مولانا دیوبندی رحمہ اللہ نے فرمایا تھاکہ اس جلسہ میں حضورﷺ کے فضائل بیان کرنا مناسب ہے یہ حضرت مولانا کا فرمانا اس خیال سے تھا کہ بڑا مجمع ہے ہرقسم کے عقائد کے لوگ اطراف سے آئے ہوئے ہیں جن میں بعضے وہ بھی ہیں کہ ہم لوگوں کےمتعلق یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ ان کے دل میں حضوراقدس ﷺ کی عظمت نہیں نعوذ بااللہ توایسے لوگ رسول اللہ ﷺ کے فضائل سن کر یہ سمجھ جائیں گے کہ حضورﷺ کے متعلق ان کے یہ خیالات ہیں میں نے عرض کیا کہ ایسے بیان میں روایات کے یاد ہونے کی ضرورت ہے اور روایات مجھ کو محفوظ نہیں میری روایات پر نظربہت کم ہے فرمایا کہ اگر یاد آجائے بیان کردینا یہ حضرت کامشورہ تھا اور نیک مشورہ تھا مگر اپنا اپنا مذاق ہے مجھ کو اس کا بیان اس نیت سے کرتے ہوئے شرم معلوم ہوئی کہ اپنے منہ سے ہم یوں کہیں کہ ہم محب رسول ہیں اور ایسے ہیں ویسے ہیں دوسرے یہ وعظ تو اپنی مصلحت تبریہ کے لیے ہوامخاطبین کی مصلحت سے نہ ہوا اس لئے میں حب دنیا کا بیان کیا جس کا آج کل عام مرض ہے اور لوگوں میں سب خرابیاں حب دنیا کے سبب ہیں ۔ 6/ربیع الاول 1351ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم سہ شنبہ دراصل بدعتیوں کو اہل حق سے عناد ہے : (ملفوظ 69) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اصل میں بدعتی لوگوں کو عناد ہے اہل حق سے اس عناد کےسبب ان کی عبارات سے بعید بعید لزوم ثابت کرتے ہیں کہ یہ لازم آتا ہے وہ لازم آتا ہے صریح عبارات میں تحریفات کرکے اس پر کفرکو چسپاں کرتے ہیں مولوی ابراہیم صاحب دہلوی نے اس کی مثال میں خوب کہا اکثر واعظ ظریف ہوتے ہی ہیں کہ ان کا لزوم ایساہے جیسے ایک شخص یک چشم تھا ایک شخص یک چشم تھا ایک شخص سے راہ میں ملا اور کہا کہ توحرام زادہ تیرا باپ حرام زادہ اس نے کہا کہ میاں یہ کیا واہیات ہے راہ چلتے گالیاں دیتے ہو میں نے آخرتم کو کہا کیا تھا کہنے لگا کہ یہ مشہور ہےکہ کانا حرام زادہ توتم نے جب مجھ کو دیکھا ہوگا ضرور دل میں کہا ہوگا کہ کانا حرام زادہ تومیں نےاسکا جواب دیاکہ تو حرام زادہ تیرباپ حرام زادہ اب ایسے لزوم کا کسی کے پاس کیا علاج ۔