ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
اس پرطعن کیا جائے ماموں صاحب میں یہ بات خاص تھی کہ تارک الدنیا سے ان کو عشق کا درجہ ہوتا تھا یہ اس وقت کے بدعتیوں کی حالت تھی اب تو نہایت ہی بدین ہیں دلوں میں اہل علم سے بغض و عداوت ہے شب وروز فسق وفجور میں مبتلاء ہے مراد ہے امر دپرستی تو ان کی مثل شیر شکر کے ہے الاماشاءاللہ ۔ فطری باتیں دل کو اچھی لگتی ہیں : (ملفوظ 41) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا جو چیزیں فطری ہیں ان میں تعلیم کی ضرورت نہیں دیکھ لیجئے بچوں کی باتیں اور ان کی حرکات کیسی پیاری معلوم ہوتی ہیں جو بات بھی ہوتی ہے بے ساختہ اور بے تکلف ہوتی ہے اس لئے کہ فطری بات ہے بناوٹ کا ذرا نام نہیں ہوتا یہ تو بڑے ہوکر بگڑتے ہیں خدا معلوم کہ کیا زہر مل جاتا ہے ایک بچہ کو میں نے چھیڑا اس نے کو سا اللہ کرے بڑے ابا مرجائیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو خوش ہوگا کہ میں نے بہت بڑی بد دعاء کی حالانکہ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی مسافر اپنے گھر سے نکل کر بھٹکتا پھرتا ہو اور اس کو کوئی کہے کہ خدا کرے تو اپنے گھر چلا جایہ تیری بددعا ء ایسی ہی ہے خیر یہ تو جو کچھ بھی سہی اس وقت اس بے ساختہ یہ کہنا ایسا پیارا معلوم ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا ۔ حکایت حضرت بایزید بسطامی : (ملفوظ 42) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے جاہل صوفی نہایت ؎ ہی نددین ہیں ان کا صرف ایک کام رہ گیا ہے وہ یہ کہ امردوں اور عورتوں سے اختلاط بس یہ ہی ان کا تصوف رہ گیا ہے مراقبہ ہےتو اسی کا مکاشفہ ہےتو اسی کا استغراق ہے تو اسی کا یہ لوگ تو فاسق وفاجر ہیں اور پہلے لوگ بھی بدعتی تھے مگر بد دین نہ تھے یہ تو حلف کا حال تھا اورسلف تو دین کے عاشق تھے چنانچہ حضرت بایزید بسطامی کا واقعہ مثنوی کے دفتر چہارم کے نصف پرمذکور ہے کہ وہ سبحانی ما اعظم شافی کہہ دیتے تھے مریدوں نے ایک روز کہا یہ آپ کیا کہتے ہیں فرمایا کہ اگر اب کی مرتبہ کہوں تو مجھ جو چھریوں سے ماردینا مرید بھی ایسے نہ تھے جیسے آج کل کے ہیں چھریاں کے کر تیار ہوگئے ان سے غلبہ حال میں پھر وہی کلمہ نکلا کلمہ کا نکلنا تھا کہ چہارم طرف سے مریدوں نے مارنا شروع کیا مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ان کوتو ایک زخم بھی نہ آیا اور مریدین تمام اپنی ہی چھریوں سے زخمی ہوگئے ولانا اس کا راز فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہیں کہتے تھے ایسے لوگ صاحب حال گزرے ہیں جن کی حالت