ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
سے سنی مولانا سے میں نے جلالین کے بیس پارے پڑھے ہیں اکثر مقامات میں ایک عجیب بات ارشاد ہوتی تھی گواب سب زیادہ رہا مگر کچھ کچھ یاد ہے اور پھر باوجود ان کمالات کے یہ حالت تھی کہ اپنے کو بلکل مٹائے ہوئے اور فنا کئے ہوئے تھے اورآج کل اکثروں کی یہ حالت ہے کہ نہ علوم ہیں نہ عمل نہ کوئی تحقیق ہے نہ کوئی تدقیق ہے مگر ویسے ہی جامے سے باہر ہوئے جاتے ہیں دیکھئے ہمارے بزرگ جوہرطرح پرصاحب مال تھے ان کو جو بھی خطابات دیئے جاتے اور جن القاب سے یاد کیاجاتا تھوڑا تھا مگر ان حضرات کا انتہائی لقب مولانا تھا ورنہ اکثر مولوی صاحب کہلاتے تھے اورآج کل جن لوگوں کو ان سے کچھ بھی نسبت نہیں وہ شیخ الحدیث شیخ التفسیر، امیرالہند امام الہند کہلانے لگے یہ سب نئی ایجاد ہے البتہ شیخ الاسلام پرانا لقب ہے اس سے طبیعت میں انقباض نہیں ہوتا اور خیریہ القاب تو پھربھی علم سے تعلق رکھتے ہیں مگرآج کل تو جانوروں تک کے خطابات باعث فخر اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں یہی حوانیت کا غلبہ اس زمانہ میں ہوگیا ہے ، مثلا طوطی ہند، بلبل ہند، شیرپنجاب معلوم ہوتا ہے اب کچھ دنوں کے بعد فیل ہند ، اسپ ہند ، پیدا ہونگے کیا خرافات ہے خدا بھلاکر لے اس جاہ کا اس نے اندھا بنارکھا ہے اور سنئیے کہ ان میں لکھے پڑھے بھی نہیں مگرامام التفسیر شمس العلماء یہ خطابات اورالقاب یہ سب نیچریت کے ماتحت ہیں لوگوں کو ان باتوں میں کچھ مزہ آتا ہے استغفراللہ ۔ سادگی حضرت حاجی صاحب : (ملفوظ 126) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہمارے بزرگوں کی تو ظاہری وضع بھی سادی رہتی تھی کوئی پہنچانتا بھی نہ تھا ایک مرتبہ حضرت حاجی رحمہ اللہ دہلی تشریف رکھتے تھے دیکھا ایک جگہ مجمع ہے اور دردنامہ غمناک جوکہ حضرت کی تصنیف پڑھا جارہا ہے حضرت بھی مستمعین ( سننے والوں ) میں شریک ہوگئے اورکسی نے پہچانا بھی نہیں ایک بارپانی پت تشریف لے جارہے تھے راستہ میں دیکھا کوئی عاشق یہی دردنامہ پڑھتا جارہا ہے فرماتے تھے کہ میں نے کہا کیوں بک بک لگا رہاہے اس نے حضرت کوسختی سے جواب دیا کہ توکیا جانے حضرت کے پانی پت پہنچنے کے بعد شہرت ہوئی یہ شخص بھی ملاقات کو آیا حضرت کو پہچان کر بہت شرمندہ ہوا اور حضرت سے معافی چاہی حضرت نے فرمایا کہ بھائی تم نے کوئی بری بات تو نہیں کہی تھی یہی توکہا تھا کہ توکیا جانے واقعی میں تمہاری حالت کو کیا جانوں ، یہ حالت تھی سادگی کی اپنے