ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ربیع الاول 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ برکت فلوس میں نہیں خلوص میں ہے : (ملفوظ 44) ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک ناظم مدرسہ فرماتے تھے کہ جو طلبہ روسا کے وظائف سے تعلیم پاتے ہیں وہ اکثر ناکامیاب ہوتے فرمایا کہ اگر بظاہر کا میابی بھی ہو جائے تب بھی ان کے علم میں برکت نہیں ہوتی اس پرفرمایا کہ اس کا راز سمجھ میں نہیں آیا ہاں ایک وجہ تو بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسے طلبہ کی اول ہی سے مخلوق پر نظر ہوتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ فلاں شخص ہم کو وظیفہ دیتا ہے تو ہم کو کیا تعلق مہتمم صاحب سے اور کیا تعلق استاد صاحب سے اسکی وجہ سے اپنے بزرگوں سے بھی تعلق میں کمی پیدا ہوتی ہے یہ سب میں زیادہ مضر ہے اور یہ جو بزرگوں نے مکانوں سے کھانا لانا طلبہ کےلئے جائز رکھا تھا اس میں نفس کا معالجہ تھا مگر اب عرفا ذلت کے سبب یہ صورت بھی باپسندیدہ ہوگی مگر اس جائز رکھا تھا اس میں نفس کا معالجہ تھا مگر اب عرفاذلت کے سبب یہ صورت بھی باپسند یدہ ہوگی مگر اس میں بھی ذلت کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ کھانا دینے والا ذلیل سمجھے اور ایک یہ کہ کھانا دینے والا تو ذلیل نہیں سمجھتا مگر لانے والا اس میں اپنی ذلت سمجھتا ہے تو پہلی صورت تو ناجائز اور دوسری صورت جائز کیونکہ اس میں اس کے نفس کا معالجہ ہے اور اس ہی وجہ سے بزرگوں نے اس صورت کو جائز رکھا تھا مدرسہ دیوبندی ہی کے واقعات ہیں کہ بعض لوگ مہتمم صاحب اور مدرسیں اور مولویوں کے مخالف تھے مگر طلبہ کی نہایت عزت احترام کرتے ہیں ایک وکیل تھا نہایت بددین مگر تین طلبہ کو کھانا دیتا تھا اور جس وقت طلبہ اس کے مکان پرجاتے تو کرسی سے تعظیم کیلئے کھڑا ہوجاتا یہ حالت تو اس وقت کے فاسقوں اور فاجروں کی تھی تو اس وقت طلبہ کے مکانوں سے طلبہ کوکھانا نہیں لانا چاہیے اس میں علم اور اہل علم کی تحقیر ہے یہ مضمون آج ہی سمجھ میں آیا اس سے پہلے کبھی ذہن میں نہ آیا تھا اور یہ سب تفصیل تو غربا سے امداد لینے کے متعلق تھی باقی یہ تجربہ ہے کہ نرے امراء کے پیسہ میں برکت نہیں ہوتی اب اس کے اسباب جو بھی ہوں میں نے ایک مرتبہ سہارنپور مدرسہ مظاہر علوم میں یہی مضمون وعظ میں بیان کیا تھا جب مدرسہ کے دارلطلبہ میں مسجد ہوئی