ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
مسح اللہ کے بیٹے تھے ، اللہ تین معبودوں میں ایک ہے ۔ 12) ان کو دیکھ کرکوئی کافرکہے کہ اس سے ہم کو بڑا نفع ہوا قرآن میں دیکھ دیکھ کر سب کفریات کا دعوٰی کرلیتے ہیں بھلا اس بدفہمی کا ۔ حضرت حکیم الامت بطور سرپرست دارالعلوم : (ملفوظ 255) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک بارمدرسہ دیوبند کے متعلق بعض امور ضروریہ میں مشورہ کے لیے یہاں پرمجلس شورٰی آئی تھی اس وقت میں مدرسہ کا سرپرست تھا میں نے سب سے اول یہ سوال کیا کہ اختلاف آراء کے وقت کیا سرپرست کی رائے پراخیر فیصلہ ہوگا یا کثرت رائے کا اعتبار ہوگا اور سرپرست کے اختیار کیا کیا ہیں وجہ اس سوال کی یہ تھی کہ پہلی صورت میں تو سرپرست کو مجلس ہی میں رائے ظاہر کرنیکی ضرورت ہوگی اور دوسری صورت میں وہ اپنی رائے کو محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اس کا کوئی متفق علیہ جواب نہ ملا میں خاموش ہوگیا اس کے بعد میں یہ سمجھے ہوئے تھا کہ تنخواہ دار کا ممبر ہونا اصل کے خلاف ہے اس لئے میں نے مولوی حبیب الرحمن صاحب مہتمم اور مولانا انور شاہ صاحب صدر مدرس سے کہا کہ آپ حضرت تھوڑی دیر کو اس جگہ سے الگ ہوجائیں کیونکہ یہ دونوں حضرات تنخواہ دار تھے مگر جب ممبروں کی فہرست دکھلائی گئی تھی جس میں ان دونوں حضرات کا نام بھی تھا میں نے ان کو پھر بلاکرمجلس میں شریک کرلیا اس پرشاہ صاحب کی جماعت نے مجھ کو بے حد بدنام کیا اور ایسے الفاظ استعمال کئے کہ جس میں خود شاہ صاحب کی بھی اہانت تھی مثلا یہ کہ مجلس سے اٹھا دیا نکال دیا مگر مولوی حبیب الرحمن صاحب کی جماعت ایک کلمہ بھی زبان پرنہیں لائی البتہ خود شاہ صاحب کے متعلق کبھی بات نہیں سنی مگر اپنی جماعت پربھی کوئی روک ٹوک نہیں کی جس کی وجہ سے ان اکا بھولا پن تھا ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا عالم بھی بھولے ہوتے ہیں فرمایا بہت ، یہ تو فطری امرہے علماء بھی بھولے ہوتے ہیں بزرگ بھی بھولے ہوتے ہیں البتہ انبیاء علیہم السلام بھولے نہیں ہوتے اعلی درجہ کے عاقل ہوتے ہیں جن کا بڑے فلاسفہ کفا رلوہا مانتے تھے ورنہ وہ تو تمسخرہی اڑادیتے اور علماء میں بھی بعضے اس شان کے ہوتے ہیں چنانچہ ہماری جماعت میں مولوی حبیب الرحمن صاحب ایسے تھے کہ جس قدر یہ لیڈر پیڈر ہیں سب ان سے گھبراتے تھے حافظ احمد صاحب بھولے تھے مگر جرنیل تھے مولوی حبیب الرحمن صاحب میں صرف ایک کمی تھی وہ یہ کہ نرم تھے اور نرم آدمی سے انتظام میں گڑبڑ ہوجاتی